اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے موجودہ سیاسی صورتحال پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ عدالت کا فوکس صرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر ہے، عدالت کی ترجیح ہے کہ صرف اس نقطے پر ہی فیصلہ ہو، صرف دیکھنا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں، عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، عدالت نے صرف اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے، عدالت پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی، تمام فریقین کو کہیں گے کہ اس نقطے پر ہی فوکس کریں، آگاہ کیا جائے کہ پارلیمان کس قسم کی تحریکیں منظور کر سکتی ہے، تمام تحاریک کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں، ماضی میں عدالت غیرآئینی اقدامات پر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرتی رہی ہے، نگران حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، کوشش ہے کہ آج بروز بدھ کو فیصلہ سنا دیں، دیکھنا ہو گا کہ کیا تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری سے پہلے اسکی وجوہات دیکھی جا سکتی ہیں؟ آئین کو رولز کے ذریعے غیر موثر نہیں بنایا جا سکتا، آئین کے احکامات رولز سے بالا نہیں ہوتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے، وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اکثریت پارلیمان میں موجود تھی؟ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کیلئے بیس فیصد اراکین کی شرط آئین نے عائد کی ہے، آئینی شق کو قواعد کے ذریعے روندا نہیں جا سکتا۔ معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں، ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق سات دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے، اگر کسی وجہ سے ووٹنگ آٹھویں دن ہو تو کیا غیرآئینی ہوگی؟ آرٹیکل 91 اور 95 میں مکمل پروسیجر ہے، تو کیا اس میں قواعد کو تحفظ دیا گیا ہے؟ آرٹیکل 91اور 95 میں بے ضابطگی پر آرٹیکل 69 تحفظ دیتا ہے؟ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری کیلئے 20فیصد ارکان کا ہونا ضروری ہے، اگر 20فیصد ارکان منظوری دیں لیکن ایوان میں موجود اکثریت مخالفت کرے تو کیا ہوگا؟ عدم اعتماد کی تحریک جمع کیسے کروانی ہے طریقہ کار کے بارے میں آئین خاموش ہے، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی اپنے ایوان کے ماسٹرز ہیں، اختیارات کی تقسیم بھی آئین کی گئی ہے۔ اختیارات کی تکون موجود ہے، چھوٹی موٹی خامیوں پر سپیکر کے آئینی اختیارات کیخلاف کیسے رائے دے دیں؟ آپ چاہتے ہیں مقدمہ بازی کا نیا دروازہ کھل جائے، اگر ایسا ہوا تو پھر صوبائی اسمبلی کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواستیں آنا شروع ہوجائیں گی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ اصل سوال صرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا ہے، کیا عدالت ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے؟ پہلے اس نقطے پر مطمئن کریں کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ صرف قواعد کی خلاف ورزی نہیں، اصل سوال یہ ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ قانونی تھی یا غیر قانونی، اصل مقدمہ سپیکر کی رولنگ کی آئینی حیثیت کو جانچنا ہے، کیا عدم اعتماد کی تحریک میں غیر قانونی عوامل کو جانچا جا سکتا؟ کیا ڈپٹی سپیکر سپیکر سے اجازت لیے بغیر اختیارات استعمال کر سکتا ہے؟ ڈپٹی سپیکر کا سپیکر کے اختیارات کو استعمال کرنا آئینی ہے یا غیر آئینی؟ سماعت کے آغاز میں ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے کیس کی سماعت سے پہلے لیٹر گیٹ کی تحقیقات کی استدعا کی جس پر عدالت نے ذوالفقار بھٹہ کو روسٹرم چھوڑنے کی ہدایت کردی۔ خاتون وکیل نے استدعا کی کہ اسد مجید کو بلایا جائے جنہوں نے یہ خط لکھا ہے، جس پر عدالت نے قرار دیا کہ ایسا ممکن نہیں، فی الحال کسی کی انفرادی درخواست نہیں سن رہے، صرف سیاسی جماعتوں کے وکلا کو ہی سنیں گے، معاملہ پر پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی نے اپنے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کمشن کا میڈیا میں بیان آیا ہے کہ تین ماہ میں انتخابات ممکن نہیں، کوشش ہے کہ آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر فیصلہ آ جائے۔ رضا ربانی کے دلائل کے اختتام پر پاکستان مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دئیے کہ آرٹیکل 95 کی ذیلی شق 1 کے تحت عدم اعتماد قرارداد جمع ہوئی، عدم اعتماد کی تحریک پر 152 ارکان کے دستخط ہے، عدم اعتماد کو 161 ارکان نے پیش کرنے کی اجازت دی،161 ارکان کی حمایت پر سپیکر نے عدم اعتماد کی اجازت دی، عدم اعتماد پر مزید کارروائی 31 مارچ تک ملتوی کردیا گیا، رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی،31 مارچ کو قرارداد پر بحث نہیں کرائی گئی، 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی، وزیراعظم اکثریت کھو دیں تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے کہ وہ وزیراعظم رہیں، رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں، آٹھویں دن ووٹنگ غیرآئینی نہیں ہوگی، مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ کی ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا، وزیراعظم اعتماد کھو جانے کے بعد وزیر اعظم نہیں رہ سکتے، آرٹیکل 95 بذات خود واضح ہے جو مکمل پروسیس فراہم کرتا ہے، اگر پروسیجر میں کوئی بے ضابطگی ہو تو بھی غیر آئینی اقدام نہیں کیا جا سکتا، ووٹنگ کا عرصہ تین سے سات دن تک کا ہے بے ضابطگی کی بنیاد پر اس عرصے کو سات دن سے زیادہ نہیں بڑھایا جاسکتا، آئین واضح ہے آئین میں لکھا ہے کہ عدم اعتماد اکثریت سے پاس ہونی چاہئے، اگر تشریح کا معاملہ ہو تو پھر آرٹیکل 69 آڑے نہیں آتا، بلوچستان اسمبلی کے معاملے پر عدالت فیصلہ دے چکی ،1999 میں بلوچستان اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد دوبارہ بحال ہوئی، کیا ایسا ممکن ہے کہ سپیکر کے علاوہ پورا ایوان وزیراعظم کیخلاف ہو، کیا ایوان خلاف ہو اور سپیکر پھر بھی عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے؟ تحریک عدم اعتماد کیلئے وجوہات بتانا ضروری نہیں ہے، تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تو اس پر ووٹنگ ضروری ہے، وزیراعظم برقرار رہیں گے یا نہیں فیصلہ ایوان ہی کر سکتا ہے، سپیکر کی رولنگ آئین کی خلاف ورزی ہے، غیرآئینی رولنگ کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے، ایک شخص ایوان کی اکثریت کو سائڈ لائن نہیں کر سکتا، تحریک عدم اعتماد جمع ہوجائے تو سپیکر مسترد نہیں کر سکتا، عدم اعتماد کا طریقہ کار بارے رولز موجود ہیں، عدم کی تحریک جمع کرانے کی پہلی شرط بیس فیصد اراکین کی حمایت ہے، عدم اعتماد پر دی گئی رولنگ آئینی تقاضوں کیخلاف ہے، عدالت غیر قانونی اور آغیر آئینی اقدام پر جوڈیشل نظر ثانی کر سکتی ہے، سپریم کورٹ کو عدم اعتماد کی تحریک میں موجود غیر قانونی عوامل کو بھی جانچنے کا اختیار حاصل ہے، ڈپٹی سپیکر کا سپیکر کی اجازت کے بغیر اختیارات استعمال کرنا غیر آئینی ہے، عدالت چاہے تو حساس اداروں سے بریفنگ لے سکتی ہے، غیرآئینی اقدامات کو آئینی استحقاق حاصل نہیں ہو سکتا، عدالت میں قانونی نکات ہی اٹھائوں گا، حساس ادارے کے سربراہ سے بریفنگ چیمبر میں لی جا سکتی ہے، سابق چیف جسٹس کو قائم مقام وزیر اعظم بنانا عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے، رولنگ کالعدم ہوئی تو اسمبلی کی تحلیل بھی ختم ہو جائے گی، عمران خان کو عبوری وزیراعظم بنانا بھی آئین کے مطابق نہیں، عدالت کے سامنے چھ عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا ہے، عدالتی فیصلہ آرٹیکل 69 کے دائرہ اختیار کو واضح کرتی ہے، ڈپٹی سپیکر نے رولنگ پڑھتے وقت سپیکر کا نام بھی لیا۔ سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ میں سپیکر کا کوئی کردار نہیں ہوتا، سیکرٹری اسمبلی اور عملہ گنتی اور سپیکر اعلان کرتا ہے، سپیکر کا کردار عام قانون سازی میں ہوتا ہے جہاں اراکین کی آواز سے اکثریت کا فیصلہ ہو۔ سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ سپیکر کسی صورت آئین کی تشریح کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔ نیئر بخاری کے وکیل شہباز کھوسہ نے دلائل دئیے کہ جس قسم کے حالات بنائے گئے ہیں غیرآئینی اقدام ہو سکتا ہے، مجموعی طور پر مخدوم علی خان کی دلائل اپنا رہا ہوں۔ اے این پی کے وکیل مصطفی رمدے نے بھی مخدوم علی خان کے دلائل اپنا لئے۔ اعظم نذیر تارڑ نے اس موقع پر عدالت سے استدعا کی کہ خدشہ ہے کہ وزیراعلی کا الیکشن شاید کل بھی نہ ہو، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھا جائے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ تین اپریل کو اسمبلی میں شدید جھگڑا ہوا جس پر اجلاس ملتوی ہوا، پنجاب میں بھی جمہوریت کا مذاق بنایا جا رہا ہے، حکومتی اراکین کو ہوٹلوں میں قید رکھا گیا ہے، سپیکر پنجاب اسمبلی آئین کی مکمل پاسداری کرینگے، نئے وزیراعلی کے انتخاب تک عثمان بزدار کام جاری رکھے ہوئے ہیں، پنجاب اسمبلی اور ہوٹلز میں جو ہو رہا ہے اسکی عدالت انکوائری کرائے۔ اٹارنی جنرل نے اس موقع موقف اپنایا کہ قومی اہمیت کا کیس ہے عدالت کی تفصیلی معاونت کرنا چاہتا ہوں، نوازشریف کیس میں اسمبلی تحلیل ہوئی اور نگران حکومت بن چکی تھی، عدالت نے نوازشریف کیس میں ایک ماہ بعد فیصلہ سنایا تھا، تمام وکلا کل دلائل مکمل کریں تو پرسوں مجھے موقع دیا جائے، یہ میری زندگی کا اہم ترین کیس ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ مجھ سے زیادہ کوئی مظلوم نہیں۔ ہمارے 22 بندے وفاق اور 40 پنجاب سے اٹھا لئے گئے۔ میں پارٹی کی ترجمانی کروں گا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امتیاز صدیقی عدالت میں پیش ہوئے تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا عمران خان وزیراعظم ہی نہیں تو انکی نمائندگی کیسے کر رہے، عدالت کو بتایا گیا کہ بیرسٹر علی ظفر صدر عارف علوی کی جبکہ نعیم بخاری سپیکر قومی اسمبلی کی نمائندگی کرینگے۔ عدالت عظمی نے اس موقع پر قرار دیا کہ عدالت نے ابھی تک پنجاب پر کوئی باضابطہ حکم جاری نہیں کیا تھا، وزیراعلی کا الیکشن آئین کے مطابق ہونا ضروری ہے، اسمبلی کی کارروائی جس ایجنڈے کیلئے طلب ہوئی وہ ہونی چاہیے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کل کس وقت پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوگا؟، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس 11:30 بجے ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کل سماعت کے دوران پنجاب اسمبلی کے حوالے سے اپ ڈیٹ لیں گے، عدالت نے اس موقع پر 31 مارچ کا ڈپٹی اسپیکر کا آرڈر طلب کرتے ہوئے معاملہ کی سماعت بدھ دن ساڑھے گیارہ بجے تک کے لئے ملتوی کر دی۔ اٹارنی جنرل نے اس موقع مئوقف اپنایا کہ قومی اہمیت کا کیس ہے عدالت کی تفصیلی معاونت کرنا چاہتا ہوں، نواز شریف کیس میں اسمبلی تحلیل ہوئی اور نگران حکومت بن چکی تھی۔ عدالت نے نواز شریف کیس میں ایک ماہ بعد فیصلہ سنایا تھا، تمام وکلا کل دلائل مکمل کریں تو پرسوں مجھے موقع دیا جائے۔ یہ میری زندگی کا اہم ترین کیس ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ مجھ سے زیادہ کوئی مظلوم نہیں۔ ہمارے 22 بندے وفاق اور 40 پنجاب سے اٹھا لئے گئے۔ میں پارٹی کی ترجمانی کروں گا۔ عمران خان کی جانب سے امتیاز صدیقی عدالت میں پیش ہوئے تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا عمران خان وزیراعظم ہی نہیں تو انکی نمائندگی کیسے کر رہے، عدالت کو بتایا گیا کہ بیرسٹر علی ظفر صدر عارف علوی کی جبکہ نعیم بخاری سپیکر قومی اسمبلی کی نمائندگی کرینگے۔
سپریم کورٹ