ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں: چیف جسٹس

Apr 06, 2022 | 16:20

ویب ڈیسک

 سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں، کیا اسپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ روسٹرم پر آگئے اور عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے آج شام کو اجلاس بلایا تھا، لاہور میں حالات کشیدہ ہیں، اسمبلی کا عملہ ڈپٹی اسپیکر کا حکم نہیں مان رہا، لگتا ہے آج بھی وزیراعلی کا الیکشن نہیں ہو سکے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج بہت اہم کیس سن رہے ہیں، کوشش ہے کہ مقدمہ کو نمٹایا جائے، عدالت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فیصلہ نہیں کر رہی، سیاسی طور پر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں، یکطرفہ فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟۔

 تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم، تحریک لبیک، پی ٹی ایم، جماعت اسلامی کیس میں فریق نہیں، راہ حق پارٹی اور باپ بھی پارلیمان کا حصہ ہیں لیکن کیس میں فریق نہیں، ازخود نوٹس کی ہمیشہ عدالت کے اندر اور باہر حمایت کی ہے، عدالت کا مشکور ہوں کہ قوم پر مہربانی کرتے ہوئے نوٹس لیا، عدالت کو کہا گیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ بدنیتی پر مبنی اور غیر آئینی ہے۔وکیل بابر اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے پر کسی نے لفظ بھی نہیں کہا، ان کا دعویٰ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، پٹیشنر کہتے ہیں کہ عدالت ان کے حق میں شارٹ آرڈر بھی جاری کر دے، شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے، درخواست گزار نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا رولنگ میں دیئے حوالہ کو نظر انداز کرنا چاہتی ہیں، اپوزیشن چاہتی ہے عدالت ان کے حق میں فوری مختصر حکم نامہ جاری کرے۔

پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ مرکز، صوبے، کشمیر اور گلگت میں حکومت رکھنے والی سیاسی جماعت کو نظر انداز کرنے کا کہا جا رہا ہے، درخواست گزاروں کا دعوی ہے وہ جمہوریت کو بچانے آئے ہیں، میرا یقین ہے اس مقدمہ میں کوئی پہلو نظرانداز نہیں ہوگا، کیا آئین پاکستان کا موازنہ بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے آئین سے کیا جا سکتا ہے ؟ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات، کیس میں جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ کیس میں لاگو نہیں ہوتا۔بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیا سندھ ہاؤس اور نجی ہوٹل لاہور میں جو کچھ ہوا اسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے ؟ اراکین اسمبلی کے کردار پر قرآن و سنت اور مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا سپریم کورٹ قومی سلامتی کونسل اجلاس کے منٹس کدھر ہیں، ڈپٹی اسپیکر نے کس مواد پر اختیار استعمال کیا، عدالت کے سامنے حقائق کی بات کریں۔ وکیل نے کہا کہ اعلی سطح سفارتکار نے دوسرے ملک کی نیشنل سکیورٹی کونسل کا پیغام تین افراد کو پہنچایا۔

وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ بابر اعوان ایمبیسی کے ذریعے ہیڈ آف مشن، ڈپٹی ہیڈ آف مشن اور دفاع اتاشی کو پیغام دیا گیا، ہمارے سفارتکاروں کی بیرون ملک ملاقات کے بعد سات مارچ کو مراسلہ آیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا اسپیکر کو اختیار ہے کہ وہ ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسی حقائق پر جا سکے، اگر ایسا کوئی مٹیریل موجود ہے ؟ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کب ہوئی؟ ایک آئینی طریقہ ہے جس کو بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ آپ نے یہ بھی بتانا ہے، عدالتیں قانون کے مطابق چلتی ہیں، اس کیس میں ایک الزام لگایا گیا ہے، ہم کسی تنازع پر نہیں جانا چاہتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈپٹی اسپیکر نے ایک اقدام کیا ہے، بنیادی چیز یعنی حقائق پر آئیں، فیصلہ کرنے سے پہلے جاننا چاہتے ہیں کہ سازش کیا ہے جس کی بنیاد پر رولنگ دی گئی۔ وکیل بابر اعوان نے کہا کہ میٹنگ ہوتی ہے اور اس کا سائفر آتا ہے سات مارچ کو پاکستان میں، میٹنگ میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن، ڈیفنس اتاشی سمیت تین ڈپلومیٹس شامل تھے، ڈی سائفر کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس میں چار چیزیں ہیں۔

عدالت نے وکیل بابر اعوان سے پوچھا کہ کیا وہ معلومات کوڈز میں آئی ہیں یا سربمہر لفافے میں؟ آپ نے ڈی سائفر کا لفظ استعمال کیا، جس پر بابر اعوان نے کہا کہ میں اس کو یوں کر لیتا ہوں کہ ہمارا فارن آفس اس پر نظر ڈالتا ہے، بابر اعوان ایک میٹنگ بلائی جاتی ہے جس میں فارن سیکرٹری دستیاب نہیں ہوتے، سائفر سے نوٹس بنا کروزارت خارجہ امور وفاقی کابینہ کو بریف کرتی ہے، میں ایک بریف بنا کر لایا ہوں جسے ان کیمرا سماعت میں دکھا سکتا ہوں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فارن پالیسی کا معاملہ ہے، میں چاہتا ہوں کہ یہ بات ایک پولیٹیکل پارٹی کی جانب سے نہ آئے، یہ رولنگ سے پڑھ دیں اس میں جو کچھ ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا نکتہ بھی صحیح ہے، ہم بھی فارن پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا وفاقی کابینہ کا اجلاس کب ہوا تھا ؟ جس پر وکیل بابر اعوان نے کہا کابینہ اجلاس کی تاریخ معلوم کر کے بتائوں گا، کیا کچھ باتیں ان کیمرا ہو سکتی ہیں؟ فارن آفس نے جو بریفننگ دی وہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فی الحال خط نہیں مانگ رہے۔ عدالت نے بابر اعوان کی ان کیمرا بریفنگ کی استدعا مسترد کر دی اور کہا کہ فی الحال ایسا کچھ نہیں ہے کہ ان کیمرا سماعت کریں۔ وکیل بابر اعوان نے کہا کہ مراسلے میں چار چیزیں سامنے آئیں، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت زیادہ تفصیلات نہیں دے سکتا، فارن آفس نے مراسلہ دیکھ کر وزیراعظم اور وزیر خارجہ کیساتھ میٹنگ کی، کابینہ کی میٹنگ میں متعلقہ ڈی جی نے مراسلے پر بریفننگ دی تھی۔

صدر مملکت نے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا۔ وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے دلائل کا آغاز کروں گا، آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے، آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے، عدالت پھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی، اگر عدالت میں ایک کیس چل رہا ہے تو پارلیمنٹ اس پر تبصرہ نہیں کرتی، عدالت بھی پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرتی۔

وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ اس کیس میں اسپیکر کو بھی پارٹی بنایا گیا، عدالت کی طرف سے کوئی بھی ڈائریکشن دائرہ اختیار سے تجاوز ہوگا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کیخلاف عدالت سے رجوع کرنا پارلیمنٹ میں مداخلت ہے، اسپیکر کو دی گئی ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہوگا جو غیر آئینی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہوسکتی ؟۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کیا غیر آئینی ہے اور کیا نہیں اس پر بعد میں دلائل دوں گا، جسٹس مقبول باقر نے ریٹائرمنٹ پر اداروں میں توازن کی بات کی تھی، باہمی احترام سے ہی اداروں میں توازن پیدا کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوشش ہے کہ روزمرہ کا کام متاثر نہ ہو، کوشش کرتے ہیں کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کریں، کیس نمٹانے کیلئے کل صبح سے سماعت شروع کریں گے۔

مزیدخبریں