راولپنڈی(جنرل رپورٹر) مسلم لیگ( ن) کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزز مریم نواز نے کہا ہے کہ الیکشن سے متعلق مقدمہ عمران خان اور پی ڈی ایم کا تھالیکن صرف پی ٹی آئی کو سنا گیا، اقلیتی فیصلہ تو فیصلہ ہی نہیں ہوتا اسے ماننا کیسا؟صاف اور شفاف فیصلے ہوں گے تو توہین نہیں ہوگی،ایک وزیراعظم کو اقامہ پرگھربھیجاگیا، ٹیریان وائٹ کے معاملے پر قوم سے جھوٹ بولنے پر جواب دہی ہونی چاہیے، یہ امر باعث افسوس ہے کہ ہمیشہ منتخب وزیراعظم کو نااہل کیاگیالیکن آمروں کی حکومتوں کی توثیق کی گئی،آمرکو جب بھی نکالا تو وکلاءاورعوام نے نکالا، ستم ظریفی یہ کہ طاقت اور ڈکٹیٹر کے سامنے ہمیشہ سر جھکایا، کبھی ایل ایف او اور کبھی پی سی او بن کر مدد کی گئی،2018 میں آر ٹی ایس بٹھا کر عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا، عمران خان کو پتا ہے کہ اگر عدالت پیش ہوا تو جرم ثابت ہو جائے گا، آج آٹا لینے والوں کی لائینیں چھوٹی مگر انصاف حاصل کرنے والوں کی لائنیں لمبی ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز جوڈیشل کمپلیکس راولپنڈی میں مسلم لیگ (ن) لائرز ونگ کے وکلاءکنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا، مریم نواز کا کہنا تھا کہ آج پاکستان بنانے اور بچانے والوں کے پاس آئی ہوں، ہمارے پاس فواد چوہدری نہیں ہمارے پاس کالے کوٹوں والے وکلاءکا ٹرک ہے، وکلاءسے سوال کیا کہ کیا کسی عدالت نے کبھی کسی آمر کو نااہل کیا؟ جب روکا منتخب وزیر اعظم کا راستہ روکا، آپ کا زور صرف عوام کے وزراءاعظم پر چلتا ہے،غلط سزائیں کاٹیں ۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب آپ تب بھی جذباتی ہوتے جب رانا ثنائاللہ پر شرمناک کیس بنا، حق بات کرنے پر ن لیگ کے لوگوں کو الیکشن سے باہر کیا گیا، تب آپ جذباتی نہیں ہوئے جب عمران خان کی جھولی میں الیکشن ڈالا گیا، جسٹس قاضی فائز عیسی کو نہیں جانتی مگر قوم دیکھ رہی ہے کہ وہ ایک آئین و قانون پر چلنے والا جج ہے، وہ ان سب اور عمران خان کی راہ میں رکاوٹ تھا، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جنرل فیض کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے انکار کیا، ہم جیلوں میں اس لئے تھے کہ آپ کا نظام عدل جنرل فیض کے ہاتھوں میں تھا،، عمران خان تو چارپائی کے نیچے سے ہی نہیں نکلتے اور جب باہر آتے ہیں تو منہ پر کالا ڈبہ پہن کر نکلتے ہیں، سرینا فائز عیسیٰ اور مریم کونسی پبلک آفس ہولڈر تھیں۔ ، الیکشن وقت پرہوں گے، فتنہ وفساد اورانتشارپھیلانے والے کے کہنے پرنہیں، کچھ ایسے بزدل بھی ہیں جب عدالت جاتے ہیں تو جنگلہ گاڑی میں کلاشن کوف کے ساتھ جاتے ہیں، 2017ءمیں جسٹس(ر) ثاقب نثار، جسٹس آ صف کھوسہ اور جنرل فیض نے جو کام سرانجام دیا، اب دوسرے سہولت کار اس کام کو سر انجام دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں متنازع انتخابات کا انعقاد ملک کو افر اتفری اور انارکی طرف لے کر جائے گا، موجودہ حکومت اسی کے سامنے رکاوٹ بن کے کھڑی ہے ، انتخابات تمام فریقین کی مرضی اور اتفاق رائے سے ہونے چاہیں،وفاقی وزیر نے کہا کہ آج اس عظیم و الشان وکلا کنوونشن کے انعقاد پر مسلم لیگ ن لائر فورم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، انتخابات سے گھبرانے والے نہیں ہیں،ججز کا الیکشن پر اتفاق نہیں ہے لیکن تین ججزنے پنجاب میں 14مئی کے الیکشن کا نیا شیڈول دے دیا ہے، الیکشن کمیشن،دفاعی اداروں، سکیورٹی کے اداروں کو اس سے اتفاق نہیں ہے اورچار جج اس کے خلاف اور تین حق میں فیصلہ دے رہے ہیں، ہماری رائے ہے کہ اس قسم کا متنازعہ الیکشن ملک کو افراتفری اور انارکی طر ف لیکر جائے گا۔71 اور 77 کے بعد اگر تیسرا الیکشن متنازعہ ہوا تو تباہی کا باعث بنے گا، فتنہ خان اپنی ضد سے الیکشن کرانا چاہتا ہے، یہ ہٹ دھرمی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کے الیکشن ضرور ہوں گے لیکن اپنے وقت پر ہونے چاہیں۔وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ملک ایک بحرانی کیفیت سے گذر رہا، ملک کو بحرانوں سے نکالنا ہے اور ترازو کے پلڑے برابر کرنے ہیں تو اس ضمن میں وکلا کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستان بھر کے نڈر،بے باک وکلا کی طرف سے عدل کے ایوانوں کو پیغام دیدیا گیا ہے کہ ترازو کے پلڑے برابر تولو۔ وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اجلاس میں کابینہ کے فیصلے کی پارلیمنٹ سے توثیق کا فیصلہ ہوا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ حکومت پر بائنڈنگ نہیں ہے۔ پارلیمنٹ اگر کوئی اقدام کرتی ہے تو وہ حکومت پر بائنڈنگ ہو گا۔ اگر 3 ججز کا بنچ پوری پارلیمنٹ کو گھر بھیج سکتا ہے تو یہ ہو ہی جانا چاہئے۔ کابینہ نے اپنے حتمی فیصلے کو پارلیمنٹ کی رہنمائی سے مشروط کیا ہے۔