سیاسی چپقلش اور کھلواڑ
سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
ہم تو سمجھتے تھے کہ کھلواڑ تو صرف سیاست دانوں میں ہی ہے اور سیاسی چپقلش سیاست دانوں کے درمیان ہوتی ہے ،اس حوالے سے قصے اور کہانیاں بہت ہیں اور ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔ سیاست دان عرصہ دراز سے اس قسم کی سیاست میں مشغول ہیں۔لیکن اس کے علاوہ بھی ہمارے ملک میں جو بھی غیر آئینی حکومتیں بنی ہیں ان کا کیا کہنا ؟ جبکہ اس وقت آئین کو صرف اور صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھا جاتا ہے۔آئین اس ملک کو اور اس نظام کو چلانے کا ایک ڈاکو منٹ ہے جس کی ہر صورت میں عزت اور احترام ضروری ہے۔لیکن ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے آئین کو حلیہ بگڑا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے نظام میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں۔اس بگاڑ نے ہمارے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے آئین کا احترام نہ ہونے کے باعث ملک میں ایک ہیجان کی کیفیت پیداہو گئی ہے۔اس وقت جو صورتحال عدلیہ میں نظر آرہی ہے یا پھر ملک میں فوجی مداخلت سے متعلق جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور اس حوالے سے جو بیانات دیے جا رہے ہیں اس کی وجہ صرف اور صرف آئین کا بگا ڑ ہے۔میرا تو ہمیشہ سے اس حوالے سے یہی موقف رہا ہے کہ آئین میں 8ویں اور 17ویں ترامیم کے ذریعے جو بگاڑ پیدا کیا گیا وہ درست ہونا ضروری ہے اور جب تک یہ بگاڑ درست نہیں کیا جاتا ہے ،تب تک معاملات سیاست دانوں کے ہاتھ میں رہنا مشکل ہے اس کے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔بات یہ نہیں ہے کہ سیاست آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں بلکہ بات یہ ہے کہ اس وقت بد قسمتی سے ہر ادارہ دوسرے ادارے کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔اور ملک کو اس حالت غیر سے نکا لنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں اس وقت آئینی اسمبلی کے الیکشن کروائے جا ئیں۔اس سے مسائل کا حل نکل سکتا ہے جمہوریت میں عوام کی رائے ہی سب سے مقدم ہو ا کرتی ہے اور عوام ہی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔عوام کی رائے کا احترام بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔اس کا احترام کیا جانا چاہیے اور ماضی روش سے نکلنے کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی میں عوام کی رائے کا احترام نہیں کیا گیا ہے اور اس کے نتائج ہمیں اور ہمارے ملک کو بھگتنے پڑے ہیں۔ہمیں حالات میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ہمیں آگے بڑھنے کے لیے ماضی کے شکجنوں سے نکلنے کی ضرورت ہے۔یہ بہت ضروری ہو گیا ہے کیونکہ ملکی حالات جس ڈگر پر پہنچ گئے ہیں یہاں سے حالات میں بہتری کی بہت ہی کم امید دیکھائی دے رہی ہے۔ہمیں ملک کے حالات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔بہر حال ہمیں آئین کو خرافات سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔اور ما رشل لائ کے ادوار میں یہ خرافات آئین میں داخل کیے گئے ہیں۔ہمیں اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
باہر کی ان ترامیم کو آئین سے نکالنے کی ضرورت ہے۔آئین میں ترمیم اسمبلی خود کرتی ہے ،اور قانون سازوں کو اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔جب تک یہ تبدیلیاں نہیں کی جاتی ہیں ،تب تک ملک میں جاری یہ اندرونی لڑائیاں ختم نہیں ہو سکتی ہیں اور یہ اسی طرح جاری و ساری رہے گی اور ملک اسی طرح خراب ہو تا رہے گا۔اس وقت جو ملکی صورتحال ہے اور جو عدلیہ کے درمیان اختلافات سامنے آرہے ہیں اور گزشتہ چند رو ز میں جو اس حوالے سے صورتحال بنی ہے وہ افسوس ناک ہے لیکن بہر حال یہ ایک عدالتی معاملہ ہے جس پر کہ میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا ہوں ،لیکن بہر حال جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہایت ہی افسوس ناک ہے اور یہ نہیں ہونا چاہیے تھا اداروں کے درمیان تقسیم کسی صورت میں بھی ملکی مفاد میں نہیں ہے اور کبھی بھی ملکی صورتحال کو اس جانب نہیں لے جانا چاہیے کہ ملک کو ہی شدید نقصان پہنچے۔سپر یم کورٹ کے ججز کے اس طرح سے کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آجانا نہایت ہی انہونہ واقع ہے ،اور اس کا گمان بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔ملک اس وقت بے شمار مسائل میں گھرا ہو ا ہے اور صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ مسائل کو مزید نہ بڑھایا جائے مزید بحران نہ پیدا کیے جا ئیں ،اور ملک بیٹھ کر ملک کو اور عوام کو مسائل سے نجات دلانے کی کوشش کی جائے۔قومی مسائل اس بات کا تقاضا کر رہے ہیں کہ اجتماعی سیاسی دانش بروئے کار لاتے ہوئے مسائل کے حل کی طرف بڑھا جائے۔ان بحرانوں کے حل کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے کوشش کی جانی چاہیے۔مسائل کا حل ٹھنڈے ما حول میں اور صبر اور خوش دلی کے ساتھ تلاش کیا جانا چاہیے۔ہمارے جتنے بھی مسائل ہیں چاہے وہ آئینی ہوں ،قانونی ہو ں یا سیاسی ہوں ،یا پھر معاشی مسائل ہی کیوں نہ ہو ں یہ مسائل انسانی کو تاہیوں کی وجہ سے ہی پیدا ہو ئے ہیں۔اور کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کا حل نہ ڈھونڈا جا سکے۔انسانوں کے پیدا کر دہ مسائل انسان ہی حل کر سکتے ہیں۔اور ہمیں اس جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔اناﺅں کے خول سے باہر آنے کی ضرورت ہے اور سیاسی اور زاتی مفادات کو با لائے طاق رکھ کے ملکی مفادات کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔