11 لاکھ برطانوی پاکستانیوں کے پہلے مسلم سابق رکن پارلیمنٹ‘ مسلم لیگ (ن) اور بعدازاں تحریک انصاف کے گورنر پنجاب کی حیثیت سے ساڑھے تین سال تک ذمہ داریاں نبھانے والے چودھری محمد سرور جنہوں نے پاکستانی سیاست میں خدمات سرانجام دینے کیلئے اپنی برطانوی شہریت تک قربان کر دی اور جنہوں نے گزشتہ ڈیڑھ برس سے اپنے آپ کو اور اپنے خیراتی ادارے سرور فائونڈیشن کو پاکستان میں آئے حالیہ سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے مکمل طور پر وقف کر رکھا تھا‘ بالآخر پاکستانی سیاست میں عملی طور پر حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اپنی اس عملی سیاست کا آغاز ’’اس بار‘‘ انہوں نے مسلم لیگ (قائداعظم) سے کیا ہے۔ لفظ ’’اس بار‘‘ میں نے اس لئے لکھا ہے کہ ماضی میں وہ دو سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف سے مکمل طور پر اب علیحدگی اختیار کرچکے ہیں جبکہ کئی برس قبل سکاٹ لینڈ میں وہ پیپلزپارٹی کے عہدیدار بھی رہ چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور اب تحریک انصاف سے علیحدگی کے بارے میں اگلے روز میں نے جب ان سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ آپ سے زیادہ اور کون جانتا ہے کہ میں نے 1996ء میں جب برطانوی سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو اپنی پارٹی کا امیدوار بننے کیلئے مجھے کس طرح عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا اور پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے کس طرح سرخرو کیا۔ اس وقت بھی اصولوں کا بندہ تھا اور آج بھی اصول پرستی ہی کو عبادت کا درجہ دیتا ہوں۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے ادوار میں بھی میری سب سے بڑی سیاسی گھٹن بیچ راستے میں منافقت کی رکاوٹ رہی۔
عملی سیاست میں متحرک ہونے سے قبل آپ نے علیحدہ نئی پارٹی تشکیل دینے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ جہانگیر ترین اور عبدالعلیم گروپوں میں شمولیت کی افواہیں بھی عام تھیں پھر اچانک پی ایم ایل قاف میں شمولیت آپ نے کیسے اختیار کرلی؟۔ مجھے معلوم تھا یہ سوال آپ ضرور پوچھیں گے کہ اس بارے میں آپ سے بھی اکثر بات چیت ہوتی تھی۔ میری یہ خواہش تھی کہ اپنے آئندہ سیاسی مستقبل کیلئے ایسے سیاسی پلیٹ فارم کا انتخاب کروں جس میں عوام کی حقیقی خدمات‘ عزت و احترام اور میری اصول پرستی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آسکے۔ یہ فیصلہ کرتے وقت ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب میں پاکستانی سیاست میں کوئی بڑا رول ادا کرنے کے فیصلے سے دل برداشتہ ہو گیا۔ اپنی قومی سیاست میں میں چونکہ سیاسی شعبدہ بازیاں بھی دیکھ چکا ہوں اس لئے سیاست میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرلیا مگر میرے اس فیصلے کے بارے میں جب میرے سیاسی احباب اور دوستوں کو علم ہوا تو انہوں نے مجھے فوری طور پر یہ فیصلہ بدلنے کی درخواست کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیاست سے میں شاید خوفزدہ ہو گیا ہوں۔ مجھے اصولوں کو متعارف کرواتے ہوئے سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار قوم کا سہارا بننا ہے۔ اس لئے مجھے اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا اور یوں کافی سوچ بچار اور دوستوں سے مشورے کے بعد میں نے پاکستان مسلم لیگ قائداعظم میں اگلے روز شمولیت اختیار کرلی۔ بنیادی طور پر یہی وہ حقیقی مسلم لیگ ہے جسے بزرگ سیاست دان چودھری شجاعت حسین بطور چیئرمین افہام و تفہیم سے طویل عرصہ سے عوام کی خدمت کیلئے وقف کر چکے ہیں۔
پارٹی میں شمولیت کے بعد آپ کو کس عہدے کیلئے منتخب کیا گیا؟ میں نے پوچھا۔ محترم چودھری شجاعت حسین صاحب‘ انکے قریبی رفقاء اور کارکنان نے مجھے کچھ زیادہ ہی ذمہ داریاں سونپ دی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کیلئے بطور چیف آرگنائزراور مسلم لیگ پنجاب کے صدر کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں جو میرے لئے ایک غیرمعمولی اعزاز ہے۔
مسلم لیگ میں جدت‘ استحکام اور جدید تقاضوں میں ڈھالنے کیلئے آپ کے وہ کونسے ایسے اقدامات ہونگے جن سے پارٹی مزید مقبولیت حاصل کر پائے گی؟ بہت اچھا مگر تکنیکی سوال آپ نے پوچھا ہے۔ میری سلیف میڈ برطانوی سیاسی زندگی آپ سے قطعی ڈھکی چھپی نہیں۔ میری کوشش ہو گی کہ اپنی اس مسلم لیگ کو ایسا رول ماڈل دوں جس میں حقیقی جمہوریت اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی واضح جھلک نظر آئے۔ اس سلسلہ میں برطانوی جمہوری روایات‘ سیاست میں احترام اور پارٹی سے نچلے درجے سے مینڈیٹ لے کر اوپر تک آنیوالے انتھک کارکنوں کے مورال کو بلند کرنے کیلئے اپنے آپ کو وقف کروں۔ پارٹی کے سیٹ اپ میں جمہوری عمل کو ہر حال میں مقدم رکھنا چاہتا ہوں۔ برطانوی طرز جمہوریت کے ان بنیادی نکات سے بھی استفادہ کرنا چاہتا ہوں جن سے برطانوی سیاسی پارٹیوں کو آج بھی دنیا میں عروج حاصل ہے۔ برطانیہ میں جس طرح ’’بروز‘‘ اور ’’کونسلوں‘‘ سے کونسلرز امیدواروں کا مقامی پارٹی قیادت کے طے کردہ انٹرویوز کے تحت جس طرح چنائو عمل میں لایا جاتا ہے‘ کوشش ہو گی اس طریقہ کار کو اپناتے ہوئے کارکنان کی پارٹی خواہشات کا احترام کیا جائے تاکہ مخلص‘ قابل اور قربانیاں دینے والی قیادت سامنے لائی جاسکے۔
اس خالص جمہوری طریقہ کار کے تحت فوری سیاسی کامیابی کے حصول کیلئے آپ کو تربیت اور جمہوری ماحول بھی تو پیدا کرنا ہے جس کے لئے قوم کی تاہنوز تربیت درکار ہے۔ فوری طور پر آپ یہ کام کر پائیں گے؟ میں نے چودھری صاحب سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ آپ واقعی مشکل سوال پوچھ رہے ہیں مگر میں یہ واضح کردوں کہ کسی بھی نئے مشکل کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے محنت‘ کوشش‘ جذبہ اور خلوص نیت کا ہونا لازمی ہے۔ جب میں برطانوی رکن پارلیمنٹ تھا تو مجھے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا مگر میں نے تمام تر معاشرتی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر مقام پر کامیابی سے نوازا۔ اسلئے مجھے قوی امید ہے کہ ملکی سیاست میں روداری کو قائم رکھتے ہوئے اپنی پارٹی کے امیج کو مزید بلند کرنے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کر دوں گا۔ تاہم آپ کا یہ کالم اپنے ریکارڈ میں ضرور رکھوں گا تاکہ مستقبل قریب میں آپ کے کئے ان سوالات کے جوابات کو بطور ثبوت پیش کر سکوں۔
٭…٭…٭