گراں خواب چینیوں کا سنبھلنا

Apr 06, 2023

اس وقت چین دنیا بھر میں ایک ایسی قوت کے طور پر خود کو منوا رہا ہے جو امریکا کے مقابلے میں سپر پاور بننے کی نہ صرف صلاحیت اور اہلیت رکھتی ہے بلکہ اس سلسلے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ آگے بڑھتی جارہی ہے۔ گو کہ ابھی تک دنیا پر امریکا کا تسلط قائم ہے لیکن چین جس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قابلِ قیاس مستقبل میں دنیا صرف ایک سپر پاور کے تصور سے نجات پا لے گی۔ ایسا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہر عروج کو بہرطور زوال آمادہ ہونا ہی پڑتا ہے، اور ویسے بھی تقریباً پون صدی کے عرصے میں امریکا نے یورپی ممالک کے ساتھ مل کر دنیا کے مختلف خطوں اور ملکوں کے خلاف ایسے ایسے اقدامات کیے ہیں کہ اب بہت کم ممالک ایسے رہ گئے ہیں جو خوش دلی سے امریکا کے ساتھ چلنے پر تیار دکھائی دیتے ہیں۔ اس بات کا احساس صرف امریکا سے باہر ہی نہیں پایا جاتا بلکہ امریکا کے اندر سے بھی تواتر سے ایسی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں جن کے ذریعے یہ بتایا جاتا ہے کہ امریکا دنیا میں ایک قزاق کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
بین الاقوامی یا عالمی سطح پر ہر ملک اپنے مفادات کا تحفظ سب سے پہلے یقینی بناتا ہے اور اس کے بعد وہ کسی دوسرے کے بارے میں سوچتا ہے، اس زاویے سے دیکھا جائے تو ہر ملک کو، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، کسی نہ کسی حد تک قزاق بننا ہی پڑتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں امریکا کا طریقۂ واردات وقت گزرنے کے ساتھ ایسا بنتا گیا ہے کہ اب اس کے بارے میں مثبت جذبات کم سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ امریکا خود بھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے، لہٰذا اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے وہ تعلیمی سفارت کاری سمیت کئی ایسے اقدامات کرتا ہے جن کا مقصد اس کے بارے میں دیگر ممالک کے باسیوں کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرنا ہے۔ اس کوشش میں امریکا کس حد تک کامیاب ہو پاتا ہے اس کا اندازہ اگر ہم پاکستان کی مثال سے لگانا چاہیں تو ایسا جواب برآمد ہوتا ہے جس سے امریکا کی کسی بھی قسم کی حوصلہ افزائی نہیں ہوسکتی۔
امریکا کے مقابلے میں دیکھا جائے تو اب حالات ایسے بن چکے ہیں کہ چین کو بہتر سمجھا جاتا ہے اور اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ایک تو چین نے گزشتہ تقریباً نصف صدی سے تجارتی امور پر اس حد تک توجہ دی ہے کہ دنیا میں اس کی پہچان ایک ایسے ملک کی بن چکی ہے جو تجارت کے ذریعے مختلف ممالک اور خطوں کو جوڑنا چاہتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ چین نے پوری دنیا کی منڈیوں میں جیسے اپنا نام پیدا کیا ہے وہ اپنی جگہ ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے ممالک چین سے سیاسی اختلافات رکھنے کے باوجود اس کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ چین اس نکتے کو پوری طرح سمجھ چکا ہے کہ دنیا میں معاشی اور تجارتی معاملات کو وہ حیثیت حاصل ہے کہ ان کی مدد سے مخالف کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھا جاسکتا ہے۔ اسی لیے چین کے تجارتی تعلقات بھارت کے ساتھ بھی مستحکم ہیں۔
چین کی امریکا کے مقابلے میں دنیا میں مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ چین نے نیٹو جیسا کوئی اتحاد نہیں بنا رکھا جس کی دنیا میں شہرت ایک ایسے گروہ کی ہے جو ممالک اور خطوں کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے ایک بدنام گینگ کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ رواں صدی کے ربع حصے سے بھی کم عرصے میں امریکا کم از کم تین ایسی بڑی اور لاتعداد درمیانے اور چھوٹے درجے کی وارداتیں کرچکا ہے جن کا مقصد ان ممالک کو تباہ و برباد کر کے ان کے وسائل پر قبضہ کرنا تھا جہاں وہ وارداتیں کی گئیں۔ ان وارداتوں میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے ممالک اور ان کے ہمسایوں کی نظر میں امریکا کی حیثیت ایک ہیرو کی ہرگز نہیں ہے۔
دوسری طرف، چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے ایشیا، افریقا اور یورپ کے ڈیڑھ سے زائد ممالک اور اداروں کو اکٹھا کر کے سرمایہ کاری اور تجارت کے ایک بے مثال منصوبے کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالث کا کردار ادا کر کے اس نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ امن اور محبت کا داعی ہے اور دیرینہ حریفوں کو بھی حلیف بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ صورتحال صرف امریکا ہی نہیں بلکہ بھارت کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے اور مستقبل میں اس پریشانی کے بڑھنے کے آثار واضح دکھائی دے رہے ہیں۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں