”یوم شہادتِ ، ”باب العلم “ سیّدنا علی مرتضیٰ ؓ !“ (2) 

معزز قارئین ! 18 رمضان المبارک 1445ھ (29مارچ 2024ئ) کے روزنامہ ”نوائے وقت “ میں میرے کالم کا عنوان تھا۔ ”غزوہ بدر ، پیغمبر ِ انقلاب اور ذوالفقارِ مولا علی ! “۔ اس میں خواجہ غریب نواز نائب رسول فی الہند ،حضرت معین الدّین چشتی، شیخ عبدالقادر جیلانی (غوث الاعظم) ، شیخ شرف الدّین مصلح سعدی شیرازی، عاشق رسول، علاّمہ محمد اقبال کے ساتھ ساتھ، مجھ ناچیز کی نعت ہائے رسول مقبول اور مولا علی مرتضی ؓکی پنجابی اور اردو کی دو منقبتیں بھی شامل کی گئی تھیں۔ 
”علاّمہ اقبال مرزا غالب کے حضور ! “
معزز قارئین ! 1924 ءمیں شائع ہونے والی ان کی تصنیف ”بانگ درا“ میں علاّمہ صاحب نے ”مرزا غالب“ کے عنوان سے جو 20 اشعار کی نظم شائع کی مَیں اس کے صرف تین شعر پیش کر رہا ہوں ....
” فکر انساں پر تری، ہستی سے، یہ روشن ہوا!
ہے پر مرغ تخیل کی، رسائی تا کجا!
....O....
تھا سراپا روح تو بزم سخن پیکر ترا !
زیب محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا !
....O....
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے!
بن کے سوز زندگی ، ہر شے میں جو مستور ہے!“ 
....O....
شارح اقبالیات، مولانا غلام رسول مہر نے اِن اشعار کی شرح یوں بیان کی ہے کہ ”تیرے وجود سے اِنسانی فکر پر یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ خیال کے پرندے کی اڑان کہاں تک ہوسکتی ہے؟ تو سر سے پاﺅں تک روح تھا اور شعر کی محفل تیرا جسم تھی۔ تو محفل کی رونق بھی بنا رہا ہے اور اِس سے چھپا بھی رہا۔ تیری آنکھ کو اِس حسن کا یہ دیکھنا منظور ہے، جو زندگی کی جلن اور حرارت بن کر ہر چیز میں پوشیدہ ہے! “۔
چوتھے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ ”تیری شاعری شعر کی محفل کے لئے زینت اور رونق کا باعث تھی لیکن وہ محفل تیری عظمت کا صحیح اندازہ نہ کر سکی اور حقیقت اس سے پوشیدہ رہی۔ حس سے یہاں مراد حسن مطلق ہے جس کا جلوہ حقیقت دیکھنے والے کو ہر چیز میں نظر آتا ہے!“۔
معزز قارئین ! نجف عراق کا ایک شہر ہے جہا ں حضرت علی مرتضیٰؓ کا روضہ اقدس ہے۔ اپنی ایک نظم میں علاّمہ اقبال نے فرمایا کہ .... 
نجف، میرا مدینہ ہے، مدینہ ہے میرا کعبہ!
مَیں بندہ اور کا ہوں، امّتِ شاہ ولایت ہوں!
....O....
”خدماتِ مرزا اسد اللہ خان غالب!“
معزز قارئین ! 13 رجب المرجب 1443 ہجری (15 فروری 2022ئ)کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے جشنِ مولودِ کعبہ (باب العلم ، حضرت علی مرتضیٰؓ )کا یوم ولادت عقیدت و احترام سے منایا گیا تھا۔ اسی روز دنیا بھر میں اردو اور فارسی کے شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں نے برصغیر کے اردو اور فارسی زبان کے نامور شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی153 ویں برسی مناتے ہوئے انہیں خراجِ عقیدت پیش کِیا تھا۔ مَی
ں نے ”جشنِ مولودِ کعبہ/ مرزا غالب کی برسی!“۔ کے عنوان سے روزنامہ ”نوائے وقت“ 18 فروری 2022ءکے کالم میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم اور مولا علی مرتضیٰؓ کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے نامور شاعر مرز اسد اللہ خان غالب کی دو فارسی رباعیوں (ان کا ترجمہ) اور ایک اردو شعر کی شرح شامل کی۔ ملاحظہ فرمائیں .... 
شرط است کہ بہرضبط آداب و رسوم!
خیزد بعد از نبی امام معصوم!
اجماع چہ گوئی بہ علیؓ باز گرای!
مہ جائے نشین مہرِ باشد نہ نجوم!
....O....
ترجمہ :۔” لازمی ہے کہ اپنے آپ آداب و رسوم برقرار رکھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کے بعد امام معصوم ان کی جگہ لیں۔ تو اجماع کی کیا بات کرتا ہے؟۔ (سیدھی بات ہے کہ) آفتاب کا جانشین چاند ہوتا ہے۔ ستارے نہیں ہوتے ، اسی لئے تو حضرت علیؓ کی طرف مائل ہو!۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم کو آفتاب سے اور امام معصوم ( یہاں مراد حضرت علیؓ ہیں) کو چاند کہا جاتا ہے!“۔ 
بردل ازدِیدہ فتح باب است، ایں خواب!
باران امیدرا سحاب است، ایں خواب!
زنہار گماں مبر کہ خواب است، ایں خواب!
تعبیر ولاے بوتراب است، ایں خواب!
....O....
ترجمہ:۔” یہ خواب آنکھوں کے راستے دل کا دروازہ کھولنے والا ہے۔ یہ خواب امید کی بارش کا بادل ہے۔ زنہار، یہ خیال مت کرنا کہ میرا یہ خواب ایک عام خواب ہے۔ میرا یہ خواب تو حضرت علیؓ سے میری محبت و عقیدت کی تعبیر ہے۔ حضرت علیؓ سے اپنی بے حد محبت و عقیدت کا اظہار خواب کے حوالے سے کیا ہے!“۔
....O....
”غالب ندیم دوست سے، آتی ہے بوئے دوست!
مشغولِ حق ہوں بندگی بوتراب میں!“
....O....
یعنی۔ ” مَیں (مرزا غالب) اگر حضرت علیؓ کی عبادت کر رہا ہوں تو یہ بھی در حقیقت خدا کی عبادت ہے کیوں کہ حضرت، شیر خدا ، خدا کے دوست ہیں اور دوست کی پرستش سے دوست کی پرستش ہو رہی ہے!“۔
....O....
” مولائی حضرت قائداعظم !“
مولا علی مرتضیٰؓ کے حوالے سے علاّمہ اقبال ” مولائی“ کہلاتے تھے اور قائداعظم بھی ، جب کسی صحافی نے قائداعظم سے پوچھا کہ ” آپ شیعہ ہیں یا سنی؟ “ تو آپ نے فرمایا کہ ”نہ شیعہ اور نہ سنی لیکن ہم سب مسلمان تو حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا یوم پیدائش اور یوم شہادت مل کر مناتے ہیں!“۔ 
معزز قارئین ! کئی سال پہلے مَیں نے بانی پاکستان حضرت قائداعظم کی عظمت بیان کرتے ہوئے ایک نظم لکھی اور جو کئی روزنامہ اخبارات میں شائع ہوئی تھی، جس کا عنوان تھا۔”اے عظیم الشان قائد! تیری عظمت کو سلام! “۔ صرف چار شعر عرض کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں ....
نامِ محمد مصطفےٰ ،نامِ علی عالی مقام!
کِتنا بابرکت ہے، حضرت قائداعظم کا نام۔
.... O ....
جب مقّدر کھل گیا، اِسلامیانِ ہِند کا!
قائدِ ذِی شان ابھرا، صورتِ ماہِ تمام!
....O ....
یہ ترا اِحسان ہے کہ آج ہم آزاد ہیں!
اے عظیم الشان قائد! تیری عظمت کو سلام!
....O....
اِس طرح دِل میں بسائیں، قائداعظم کی یاد!
ملک میں قائم کریں ، مضبوط جمہوری نظام!
.... O ....
............................(ختم شد )۔

ای پیپر دی نیشن