مجھے بخوبی یاد ہے کہ آج سے دس سال قبل 2014ءمیں 27 رمضان المبارک دن کے ایک بجے نوائے وقت آفس گیا تو دیکھا چونکہ اسی روز ہی 9بجے ”نوائے وقت“ گروپ کے اراکین معمار صحافت کو سپرد خاک کر کے آئے تھے۔ آفس کی فضا سوگوار تھی مگر کام جاری و ساری تھا۔ معمار صحافت کے قائد محمد علی جناح کے ارشاد کام، کام اور کام کا عملی مظاہرہ تدفین کے روز بھی دیکھ کر دلی اطمینان ہوا۔ علامہ اقبالؒ نے جس پاکستان کا تصوردیا۔ محمد علی جناح کی انتھک جدوجہد سے وہ 27رمضان المبارک کو معرض وجود میں آگیا چونکہ معمار صحافت کے اسلام، اقبال، قائداعظم اور پاکستان چار سچے اور پکے عشق تھے۔ لہٰذا تخلیق پاکستان کی ہی مناسبت سے اللہ کریم نے 27رمضان المبارک (قیام پاکستان کا دن) کو ہی عاشق پاکستان کو اپنے پاس بلا لیا۔ عصر حاضر میں ”بڑا“ آدمی اسے سمجھا جاتا ہے۔ جو انسانوں سے نفرت کرے اور انھیں اپنے نزدیک تک نہ آنے دے مگر معمار صحافت جناب مجید نظامی کا شمار ایسے بڑوں میں نہیں ہوتا وہ حقیقی معنوں میں انسانیت سے پیار کرنے والے عظیم انسان تھے۔ وہ اقبال کے دیوانے تھے اور اقبال کی مانند ان کا عقیدہ بھی یہی تھا :
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میںاس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
اُس دن میں نے ان کے ڈرائیور حبیب سے پوچھا کہ مجید نظامی صاحب کے بارے میں کچھ بتایے تو بے ساختہ کہنے لگا کہ ”وہ اس وقت کے قائداعظم تھے۔ ( یہ اس کی بے پناہ محبت کا اظہار تھا) اور یہ کہ مجھے کبھی بھی توکر کے نہیں بلایا بلکہ آپ کہہ کر بلاتے تھے۔ میرے جد امجد سید نور محمد قادری ”نوائے وقتیے“ تھے۔ میری پرورش بھی ننھیال میں ہوئی تھی لہٰذا پرائمری میں ہی تھا ”نوائے وقت“ سے شناسائی ہوئی۔ 1996میں میری کتاب ”پانچ دریا“ شائع ہوئی۔ جسے میں نے معمار صحافت جناب مجید نظامی کے نام معنون کیا۔ آفس میں جا کر پیش کی 22جولائی 1996ءکو ہالیڈے ان میں تقریب رونمائی ہوئی صدارت جناب مجید نظامی نے کی۔ مہمان خصوصی چیف جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ تھے اور اس میں بشریٰ رحمن اور طارق عزیز صاحب نے بھی شرکت فرمائی تھی۔ 23جولائی 1996ءکو ”نوائے وقت“ اور ”دی نیشن“ میں تصاویر کے ساتھ رپورٹ شائع ہوئی میری خوشی کی انتہا نہ تھی ایک دفعہ میں نے جناب معمار صحافت کو خط لکھا کہ میں ”نوائے وقت“ میں ملازمت کرنا چاہتا ہوں۔ تو مجھے رحمت علی رازی شاید اس وقت ایڈمن انچارج تھے ان کی طر ف سے فوراً لیٹر ملا کہ اپنی اسناد اور تصویر ارسال کریں تاکہ آپ کو ملازمت دے دی جائے مگر بوجوہ میں جائن نہ کر سکا۔ میں نے اردو زبان کے حوالے سے اُنیس تصنیفات و تالیفات پیش کیں ان میں چھ کتابیں جناب حمید نظامی اور جناب مجید نظامی کے نا م معنون کرنا یہ میری معمار صحافت سے عاجزانہ محبت وعقیدت کا اظہار تھا اردو کے حوالے سے ہی کالم نگاری کا خیال آیا تو میں نے جناب محترم مجید نظامی کی خدمت میں خط لکھا کہ جناب میں کالم لکھنا چاہتا ہوں تو اگلے ہی روز اس وقت کے پی اے جاوید علوی کا فون آگیا کہ صاحب کہتے ہیں آپ کالم بھیج دیں۔ میں نے فوراً جناب مجید نظامی کے نام ارسال کر دیا۔ جو دو تین روز میں شائع ہو گیا بس یہ سلسلہ جاری ہوگیا۔ امام صحافت و معمار صحافت جناب مجید نظامی کی سرپرستی و شاگردی میرے لیے باعث صد افتخار ہے اور مجھے ہمیشہ اس اعزاز پر ناز رہے گا ۔ پھر میں کالم جناب نظامی صاحب کے نام ارسال کرتا وہ ”اوکے“ کر کے ایڈیٹوریل میں بھجواتے جب جناب فضل اعوان سے پوچھتا کہ میرا کالم مل گیا ہے تو وہ کہتے جی تو یہ جان کر خوشی ہوتی کہ میں نے آبروئے صحافت جناب مجید نظامی کو کالم بھیجا تھا اور وہ منظور ہوگیاہے بہت خوشی محسوس کرتا۔ آغاز میں میرے دو کالم ماہانہ شائع ہوتے پھر معروف کالم نگار ڈپٹی ایڈیٹر ”نوائے وقت“ جناب سعید آسی نے کمال شفقت سے میرے چار کالم کر دئیے جو کہ جاری و ساری ہیں۔ جناب سعید آسی نے اپنی عمر کی 34بہاریں معمار صحافت کی سرپرستی میں بسر کی ہیں۔ بلاشبہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ جناب سعید آسی سچے اور پکے ”نوائے وقتیے“ اور درویشانہ مزاج کی حامل شخصیت ہونے کے علاوہ ایک باوقار صحافی ہیں۔ شروع میں اردو کے حوالے سے کالم لکھتا تھا ۔ ایک روز جناب مجید نظامی سے شرف ملاقات کے لیے آفس گیا تو جناب مجید نظامی صاحب فرمانے لگے کہ ”آپ صرف اردو پر کیوں لکھتے ہیں۔ میں خاموش تھا۔ مجھے حکم دیا کہ آپ حالات حاضرہ پر لکھا کریں میںنے پوچھا جناب آپ میرا کالم پڑھتے ہیں تو فرمانے لگے جی میں پڑھتا ہوں تو مجھے دلی مسرت ہوئی۔ ان کا حکم تھا اور حالات حاضرہ پر لکھنا شروع کر دیا۔‘ ‘ ابھی میرے تین کالم شائع ہوئے تھے۔ میں نے ایک خط میں ”نوائے وقت“ کے کارڈ کے لیے خواہش کی تو دو روز بعد ہی مجھے کہا گیا کہ اپنی تصاویر اور قومی شناختی کا رڈ کی کاپی ارسال کریں، پھر مجھے کارڈ جاری کر دیا گیا۔ پھر جب میرا Accreditationکارڈ بننے کا مرحلہ آیا تو مجھے کہا گیا کہ آپ کا یہ کارڈ اس صورت میں بن سکتا ہے اگرجناب مجید نظامی آپ کے فارم پر دستخط کردیں پھر میں جناب مجید نظامی کے پاس گیا۔ انھوں نے میری درخواست پر اُسی وقت دستخط کر دئیے۔ سید شعیب الدین نے مجھے گلے لگالیا کہنے لگے کہ میں نے پہلا فارم دیکھا ہے جس پر جناب مجید نظامی صاحب کے دستخط ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ معمار صحافت نے مجھ جیسے ناچیز کو کبھی بھی مایوس نہیں کیا میری ہر خواہش کو فوراً پورا کرتے عشق رسول کے جذبہ سے سرشار تھے۔ عجز و انکسار ان کی معتبر شخصیت کا خاصہ تھا۔ ایک بارتحریک نفاذ اردو کے حوالے سے چند ناموں پر مشتمل ایک فہرست لے کر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی جناب آپ ہماری سرپرستی فرمائیے اور اپنے نام کے سامنے اپنے دستخط بھی کردیں تو میں نے دیکھا کہ ان ناموں میں ایک نام ایسا تھا جس کے ساتھ محمد تھا۔ جناب مجید نظامی نے اس نام کو سب سے اوپر کردیا اور اپنا نام سب سے نیچے لکھ دیا وہ فہرست آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ درگزر کرنا ان کی طبیعت کا حصہ تھا اگر کوئی بھی غلطی سرزدہوجاتی بس ایک خط لکھ کر ان سے معذرت کی جاتی فوراً قبول فرمالیتے۔ علامہ اقبال کی طرح خطوط کا جواب دینے میں تساہل سے بالکل کام نہ لیتے 20سال کے دوران میں کوئی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ انھیں خط لکھا گیا ہو اورجواب میں تاخیر ہوئی۔ جو بات خط میں کی جاتی اگلے دن فون پر ان کے پی اے شفیق صاحب سے جواب مل جاتا۔ جس طرح اقبال اور قائد اعظم کا کوئی ثانی نہیں ہے بالکل اسی طرح پاکستانی صحافت کی تاریخ میں معمار صحافت جناب مجید نظامی کا بھی کوئی ثانی نہیں۔ ان کی رحلت کے ساتھ ہی درخشندہ اور باوقار صحافت کا ایک باب ختم ہوگیا ہے۔
بلندیوں کے مکینو! بہت اُداس ہیں ہم
زمین پہ آکے ہم سے گفتگو تو کرو