شب قدر کی برکات

Apr 06, 2024

  حافظ فضل الرحیم اشرفی
  رسول اکرمؐ نے ایک دن بنی اسرائیل کے ایک شخص کاذکر فرمایا کہ وہ ایک ہزار ماہ تک اللہ کے راستے میں جہاد کرتا رہا۔ صحابہ کرام ؓ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہماری عمریں تو اس کے مقابلے میں بہت کم ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے شب قدر عطا فرمائی جو ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے۔مفسرین نے سورۃ القدر کے نازل ہونے کے موقع کی تفصیل بتاتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریمؐ نے صحابہ ؓکے سامنے حضرت ایوب، حضرت زکریا، حضرت یوشع اور حضرت حزقیل ؑ، ان چار حضرات کا ذکر فرماتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ اسی اسی سال اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہے اور ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں نہیں گزارا‘ اس پر صحابہ کو رشک آیا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے شب قدر کا عظیم موقعہ عطا فرمایا اور اس کے بارے میں ایک پوری سورت نازل فرمائی، جس کا نام بھی سورۃ القدر ہے اور یہ سورت قرآن حکیم کے آخری پارے میں موجود ہے۔
اس سورت میں اللہ رب العزت نے شب قدر کی چار برکتیں ذکر فرمائی ہیں۔ اس رات کی پہلی برکت تو یہ ہے کہ اِنَّا اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ یعنی بیشک ہم نے قرآن مجید کو شب قدر میں نازل کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ شب قدر میں قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اترا اور پھر موقع بہ موقع رسول اللہؐ پر نازل ہوتا رہا۔
دوسری برکت شب قدر کی یہ بیان فرمائی لَیْلَۃُ الْقَدْرِخَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شہر یعنی شب قدرہزار مہینوں سے بھی زیادہ بہتر ہے ہزار مہینوں کو اگر سالوں میں تبدیل کیا جائے تو یہ تراسی سال چار ماہ بنتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ یہ رات ہزار مہینوں کے برابر ہے بلکہ فرمایا۔خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْر ہزار مہینوں سے بھی زیادہ بہترہے اب وہ کتنی زیادہ بہتر ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی کو علم ہے مفسرین نے یہاں ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلائی جس سے اس رات کی برکتوں کی وسعت کا علم ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ لغت عرب میں گنتی کے لیے الف سے زیادہ آگے کوئی لغت نہیں ہے۔ جیسے آج کل گنتی میں ملین اور بلین آخری عدد سمجھے جاتے ہیں اسی طرح عربی میں آخری لفظ شمار کرنے کے لیے الف ہے لہٰذا خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شہْرِ کا مطلب یہ ہو اکہ انسانوں کے نزدیک گنتی کا جو آخری عدد ہے شب قدر کی برکتیں اس سے بھی زیادہ ہیں۔ غور فرمائیے امت محمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اللہ جل جلالہ‘ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اتنا بابرکت موقعہ عطا فرمایا۔
تیسری برکت شب قدر کی یہ بیان فرمائی تَنَزَّلُ الْمَلَئکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ اَمرٍ سَلٰمٌ کہ فرشتے اور روح القدس یعنی جبرئیل ؑ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین پر اترتے ہیں اور یہ رات سراپا سلامتی ہے۔شب قدر کی فضیلت و برکت کا چوتھا پہلو یہ ارشاد فرمایا ہِیَ حَتیَّ مَطْلَعِ الْفَجْر یعنی وہ شب فجر کے طلوع تک رہتی ہے، معلوم ہو اکہ شب قدر کی تمام فضیلت و برکات ساری رات رہتی ہیں رات کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیا گیا۔ لہٰذا ساری رات عبادت میں گزارنی چاہیے اور اگر ساری رات عبادت کی ہمت نہ ہو رہی ہو اوریہ سوچ کر رات کے آخری حصہ میں عبادت کرنی چاہیے سو گئے اور پھر ساری رات بغیر عبادت کے گزر گئی تو بہت بڑی خیر سے محرومی ہو گی۔ اس لیے اگر ساری رات عبادت نہ ہو سکے تو رات کے ابتدائی حصہ کی برکات سمیٹنے کا موقعہ ہاتھ سے نہ جانا چاہیے پس جس قدر وقت ملے بندہ شب قدر میں عبادت کو غنیمت جانے۔ ان ہی عظمتوں کی بنا پر اس رات کا نام شب قدر رکھا گیا کہ یہ رات واقعی بڑی قدرومنزلت اور عظمت والی ہے۔
لیکن رسول اللہؐ نے شب قدر کے لیے کسی ایک خاص تاریخ کی رات متعین نہیں فرمائی البتہ یہ خوب وضاحت فرمائی کہ شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے یعنی آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے ارشاد نبوی ؐ منقول ہے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو یعنی21،23 ، 25 ،27، 29 ویں شب گویا کہ ان پانچ راتوں ہی میں سے کسی ایک میں شب قدر ہوتی ہے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ سے دریافت کیا یا رسول اللہ ؐ مجھے شب قدر معلوم ہو جائے تو میں اس میں کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا یہ کہا کرو۔’’اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے معافی چاہنے والے کو پسند کرتا ہے مجھے بھی معاف فرما دے۔‘‘ (ابن ماجہ)
 حضرت ابو ذر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ سے عرض کیا کہ شب قدر نبی کے زمانے میں ہوتی ہے یا بعد میں بھی ہوتی ہے ؟تو رسول اللہؐنے فرمایا شب قدر قیامت تک آتی رہے گی۔ بعض صحابہ  کرام ؓ نے خصوصاً حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے ۲۷ شب کا قول اختیار کیا ہے۔
بسا اوقات یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ چاند مختلف ممالک میں مختلف ایام میں نظر آتا ہے تو پھر شب قدر کیسے متعین ہو گی اور پھر یہ بھی خیال آتا ہے کہ ہمارے ہاں جس وقت رات ہوتی ہے بعض ممالک میں اس وقت دن ہوتا ہے پھر شب قدر کے لمحات کو کیسے مخصوص کیا جا سکتا ہے تو اس کے بارے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جس طرح عیدالفطر کے دن کی بھی برکتیں ہیں۔ اب یہ عید کا دن مختلف ممالک میں مختلف ہوتا ہے ہم جب یہاں عیدالفطر کے دن کی برکات سمیٹ رہے ہوتے ہیں بہت سے ممالک میں رات ہوتی ہے لیکن جب ان ممالک میں عید کا دن ہو گا وہاں بھی اللہ رب العزت عید کی برکات عطا فرماتے ہیں بالکل اسی طرح شب قدر کی برکات بھی اللہ رب العزت ہر مسلمان کو جہاں بھی وہ ہو ضرور عطا فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کے وسیع ہونے کے پیش نظر دل میں وسوسے نہیں آنے چاہئیں انسان کی سوچ بہت محدود ہے اللہ کی رحمت لامحدود ہے اب یہ بات کہ اس رات میں ہمیں کیاکرنا چاہیے یہی سوال ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓنے رسول اکرمؐ سے کیا،آپؐ نے ارشاد فرمایا یہ پڑھاکرو۔
{اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ تحبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ}
’’یعنی اے اللہ! بے شک آپ معاف کرنے والے ہیں معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں پس مجھے معاف فرما دیجیے۔‘‘
یہ ایک مختصر اور بڑی اہم دعا ہے اور چونکہ رسول اللہ ؐنے اس دعا کی تعلیم دی ہے اس لیے اس رات کے لیے یہ مسنون دعا ہے۔ اس کے علاوہ شب قدر میں مختلف انداز میں عبادت کی جا سکتی ہے کیونکہ ایک ہی طرح کی عبادت جاری رکھی جائے تو پھر تجربہ یہ ہے کہ بشری تقاضوں کی وجہ سے نیند آنے لگتی ہے یا اکتاہٹ ہونے لگتی ہے اس لیے کچھ دیر نوافل پڑھ لیے جائیں کچھ وقت قرآن حکیم کی تلاوت کر لی جائے اور کچھ لمحے درود شریف، مناجات اور تسبیحات وغیرہ پڑھ لی جائیں اور پھر خوب دعائیں کی جائیں اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے اپنے لیے عزیز واقارب کے لیے اور اپنے ملک کے لیے اور پوری امت مسلمہ کے لیے دعائیں کیجیے اور پوری کوشش ہو کہ شب قدر کے قیمتی لمحات سے کوئی محروم نہ رہے اس لیے کہ ابن ماجہ میں حضرت انس سے ارشاد نبوی منقول ہے کہ رسول اللہؐنے فرمایا کہ رمضان المبارک کا مہینہ تمہارے پاس آیا ہے اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو اس سے محروم رہا وہ ساری خیر سے محروم رہا اور محروم کے سوا کوئی اس کی خیر سے محروم نہیں ہوتا۔ اللہ رب العزت ہم سب کو شب قدر کی برکتیں نصیب فرمائے اور ہماری دعائوں کو قبول فرمائے خصوصاً یہ دعا جو رسول اللہؐ نے سکھائی۔ {اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ تحبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ}
’’یعنی اے اللہ بے شک آپ معاف کرنے والے ہیں معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں پس مجھے معاف فرما دیجیے۔‘‘(آمین)

مزیدخبریں