اسلام آباد (عترت جعفری)پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ماہ رواں کے وسط سے نئے پروگرام کی بات چیت کا آغاز ہوگا، اس بات چیت کے بنیادی نکات میں زر مبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن، فری کرنسی ایکسچینج ریٹ، ادائیگی کے توازن، افراط زر، کرنٹ اور مالی خسارہ ، گروتھ ریٹ اور برآمدات، اور ریاست کی ملکیت میں کاروباری اداروں کی نجکاری شامل ہو گی ، پاکستان فنانسنگ کی ضروریات جو براہ راست ملک کے قرضوں کی صورتحال کو متاثر کرتی ہیں، پروگرام کی شرائط ہیں ہوں گی۔ پاکستان کو یہی ثابت کرنا ہوگا کہ قرضے اندرونی ہیں یا بیرونی ہے وہ انہیں ادا کر سکتا ہے، اور وہ ہر وہ قدم اٹھائے گا جو جن سے اس کی تمام اندرونی اور بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری ہو ں، جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس کو بڑھانا یا ایف بی ار کی اصلاحات یا سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی دراصل ان وسیع پیرامیٹرز کے ہی ا جزاء ہیں، پائیڈسٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کوآئندہ پانچ سال میں 120 ارب ڈالر کی بیرونی فائنانسنگ کی ضرورت ہے، آئندہ پانچ سال کے دوران جو دراصل آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ہی ہوں گے ، پاکستان کو ہر سال 20 سے لے کر 24 ارب ڈالر کے درمیان بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے، قرضوں کی ادائیگی، سرمایہ کاری میں اضافہ، برآمدات، روزگار، سمیت مختلف معاشی چیلنجز شامل ہیں کو قابو میں رکھنے کے لئے گروتھ ریٹ کو پائیدار بناد پر آٹھ فیصد یا اس سے اوپر رکھنا ہوگا، پاکستان ان معاشی اعداد و شمار کے ساتھ ائی ایم ایف کے سامنے بات چیت کے لیے جائے گا، وزیر خزانہ نے اپنے حالیہ بیان میں توقع ظاہر کی ہے کہ جون تک کی نیا معاہدہ پا جاے گا، ظاہر ہے مالی سال 2024۔25 کا بجٹ ائی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والی شرائط کے تحت ہی تیار کیا جانا ہے، اس کے بجٹ مالی اہداف بہت سخت ہوں گے، تاہم پاکستان کے لیے ایک عمدہ موقع یہ ہے سعودی عرب، گلف کے ممالک اور چین سمیت مختلف ممالک سے ایف ڈی ائی کو لانے میں کامیاب ہو جائے، اور سرمایہ کاری کی موجودہ سطح جو 14 فی صد کے قریب ہے اسے بڑھا کر 28 فیصد پر لے جائے تو پاکستان کا آئندہ کاآئی ایم پروگرام حقیقی طور پر آخری ثابت ہو سکتا ہے ، اگرچہ ایم ایف سیاسی امور پر بات چیت نہیں کرتا تاہم ملک میں قانونی اور آئینی اختلافات کی شدت پروگرام کو متاثر کرتی ہے،مستحکم حکومت بھی پروگرام کا غیر اعلانیہ تقاضہ ہوتی ہے۔