ابھی کل کی بات ہے کہ ہمارے محلے کا جیرا سبزی فروش چھابے میں سے گلے سڑے گوبھی کے پھولوں کو صحت مند گوبھی کے پھولوں میں سے چھانٹی کرکے بڑی بے دردی سے سڑک پر پھینک رہا تھا۔ ہمارے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جیرے کو اچھے اور برے کی کتنی پہچان ہے؟ ہمیں عمر بھر ہمدردوں اور غیر ہمدردوں کی پہچان ہی نہ ہو پائی آج ہم نے گہرے غور و خوض کے بعد اندازہ لگایا ہے کہ ہمارے اصل ہمدرد وہ ہیں‘ جو ہماری صحت کے لئے دن رات فکرمند رہتے ہیں اور پھر وہ وقتاً فوقتاً اور موقع بے موقع اپنے مفید مشوروں اور نسخوں سمیت ہمارے پیچھے بھاگتے ہیں۔ یہ لوگ ہمارے شکرئیے کے مستحق ہیں۔ ان بے لوث اور موبائل ہستیوں نے کبھی یہ تک نہ سوچا کہ ہم ان کے آستانوں پر حاضر ہو کر اپنی صحت کی بھیک طلب کریں۔ ان کی نیک نیتی کا یہ عالم ہے کہ ہم بس میں سفر کر رہے ہوں یا ٹرین میں۔ کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے۔کل ہم بس میں بیٹھے تھے کہ ایک اچانک رعب دار ’’السلام علیکم‘‘ کی آواز نے ہماری اونگھ پر سلامتی بھیجی۔ یہ کمزور سے شخص تھے اور ان کی آنکھوں پر دھاگے کے ساتھ عینک بھی بندھی ہوئی تھی۔ آج کل ہمیں مسائل نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ ان مسائل میں سب سے اہم مسئلہ نظر کی کمزوری ہے۔ نظر تو اسی سال کی عمر میں بھی کمزور نہیں ہونی چاہئے۔ آج کل چار سال کے بچے بھی عینک لگائے پھرتے ہیں۔ اس میں آپ کا بھی ا تنا قصور نہیں ہے کیونکہ ہر گھنٹے بعد لوڈشیڈنگ کی وجہ سے آپ کی آنکھوں پر ڈبل لوڈ پڑ جاتا ہے۔ ویسے بھی انارکلی میں سے گزرتے ہوئے زیادہ بصارت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم نے آپ کی آنکھوں کی حفاظت کے لئے ایک سرمہ تیار کیا ہے۔ یہ ہمارا خاندانی سرمہ ہے۔ بہرحال ان جعل سازوں پر آنکھ رکھیں‘ جو آپ کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ ہماری سرمے کی شیشی پر ہمارے بزرگوں کی دو آنکھیں بطور نشانی دیکھنا نہ بھولئے گا۔ ہمارے سرمے کے استعمال سے آپ کو رات کو بھی نظر آنا شروع ہو جائے گا اور دن کو بھی تارے نظر آئیں گے۔ ہماری پولیس سردی‘ گرمی‘ بارش مینہ میں بوٹ پیٹی اور ہیلمٹ سمیت مستعد اور متحرک رہتی ہے۔ جس طرح درخت ہمارے ہمدرد ہیں‘ وہ ہمیں آکسیجن بھی دیتے ہیں اور ایندھن کے لئے لکڑی بھی۔ اسی طرح ہماری پولیس معاشرے کا امن و سکون تباہ کرنے والوں جلوسوں کو آنسو گیس فراہم کرتی ہے اور لاٹھیاں بھی۔ کل ہم نے ایک چوک پر ہمدردی کا ایک منظر دیکھا۔ ایک چنے والا صبح سویرے نان چنے تیار کرکے پتیلہ ریڑھی پر رکھے جا رہا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس کے سپاہیوں نے چنے والے سے کہا اس پتیلے میں کہیں دھماکہ خیز مواد تو نہیں۔ ذرا چیک تو کرائو۔ ناشتے کا وقت تھا۔ پولیس کے نوجوانوں نے پتیلے میں سے چنوں‘ کوفتوں اور انڈوں سمیت دھماکہ خیز مواد برآمد کر لیا۔ چنے والے نے پولیس کے نوجوانوں کا شکریہ ادا کیا کہ اس کا کچھ بوجھ تو ہلکا ہوا۔ ہمیں ہر چوک پر چیک ہونے کی ایک عادت سی ہو گئی ہے۔ ہر سپاہی کے چیک کرنے کا اسلوب الگ ہے۔ کسی چوک سے چیک ہوئے بغیر نکل جائیں تو سوتے ہوئے ضمیر بہت ملامت کرتا ہے۔ اپنی پولیس کا شکر یہ ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں کہ وہ اپنے کام چھوڑ کر کتنے خلوص اور ایمانداری سے ہماری ہڈی پسلیوں کو چیک کرتی ہے۔ اللہ کرے زورِ چیکنگ اور زیادہ!