خبر ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف آج کل بڑی شدومد کے ساتھ طبلہ سیکھ یا سکھا رہے ہیں۔ اس خبر پر ہمارے دوست عزیزی ناہنجار کا تبصرہ انتہائی واہیات حد تک دلچسپ ہے۔ پہلے تو اس نے چھٹتے ہی یہ کہا ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘۔ اس اجمال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ناہنجار نے پرانی دلی کے رہائشی اپنے ایک دوست کا حوالہ دیا جس کے بزرگ پرویز مشرف کے باپ دادا اور خصوصاً نانا پڑنانا وغیرہ کو پشتوں سے جانتے ہیں۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ مشرف کیلئے ناچ گانا یا گانا بجانا کوئی نئی بات اس لئے نہیں کہ موصوف کے خاندان کا ایک اہم حصہ اس لطیف کام کو باقاعدہ پیشے کے طور پر بھی سرانجام دیتا رہا ہے۔ ہمارے قارئین کی اکثریت جانتی ہے کہ مشرف اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ خیر‘ چولی اور دامن سے تو مشرف سے منسوب اور بہت سی باتیں بھی یاد آنے لگتی ہیں مگر آج ہمارا موضوع صرف گانے کی حد تک ہی محدود ہے بجانے پر بات پھر کریں گے۔ کیونکہ موصوف ہارمونیم نہایت عمدگی سے بجاتے ہیں اور اس کی دھن پر لہک لہک کر گلوکاری کچھ اس ڈھنگ سے فرماتے ہیں کہ شام چوراسی گھرانہ شرما جاتا ہے۔عزیزی اپنے احمقانہ نظریات ثابت کرنے کیلئے ایک بیہودہ سی دلیل یہ بھی دیتا ہے کہ دلی کے نازک اندام باذوق لوگوں کی دیگر بیشمار خصوصیات بھی پرویز مشرف میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں مثلاً یہ کہ موصوف کو بھی سردی بہت زیادہ لگتی ہے اور آپ نے زندگی کی آدھی سے زیادہ سردیاں لحاف کے اندر رہتے ہوئے ہی گزاری ہیں۔ دوسرا یہ کہ موصوف پرلے درجے کے بزدل اور ڈرپوک ہیں اور یہ سلسلہ بھی دلی سے ہی جا ملتا ہے۔ تیسرا یہ کہ مشرف کو بھی ’’کھانے پینے‘‘ میں کریلے گوشت بیحد پسند ہیں اور چوتھا یہ کہ بھیس بدلنے اور اداکاری کرنے میں بھی مشرف نے بہت سوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ مشرف نے اپنے دیگر مشاغل کے ساتھ ساتھ اس بات کا تذکرہ بھی اپنی خود نوشت میں بڑے طمطراق کے ساتھ کیا ہے کہ ایامِ نوجوانی میں آپ اپنی ایک محبوبہ سے ملنے عورت کے بھیس میں بھی جا پہنچے تھے۔ اس واردات میں آپ نے ایک عدد برقعے کا استعمال بھی بیان کر رکھا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
خیر‘ باقی تمام باتیں تو مانی جا سکتی ہیں مگر ہم عزیزی ناہنجار کا یہ کہنا تسلیم نہیں کرتے کہ مشرف بلا کے بزدل اور ڈرپوک ہیں۔ ہمارا ذاتی مشاہدہ تو اس کے برعکس ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہم مشرف کو بس دور دور سے ہی جانتے ہیں ان کی قربت سے اللہ نے ہمیں بال بال بچا لیا ورنہ آج ہمارا حشر بھی اس مغینہ والا ہوتا جو مری کے ایک ریسٹ ہائوس سے چیخیں مارتی نکلی اور مبینہ طور پر ایک طرف بھاگ اٹھی کہ یہ بیہودہ روایت بھی چونکہ عزیزی کے ذہن پراگندہ کی پیداوار ہے اس لئے ہم اس پر من و عن یقین تو نہیں کرتے البتہ بطور تمثیل پیش ضرور کر سکتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی مشرف کی بزدلی کی تو ہمارے بعض انتہائی باخبر دوستوں کا کہنا یہی ہے کہ مشرف واقعی بلا کا بزدل ہے اور محض اپنے خوف پر قابو پانے کیلئے جعلی شورشرابہ کرتا رہتا ہے‘ اس شخص کی طرح جو اندھیری رات میں سڑک پر چلتے ہوئے با آواز بلند گانا گانے لگتا ہے! یہ تان بھی اتفاق سے گانے پر ہی آن کر ٹوٹی ہے مگر مشرف کی جو کہانیاں ہم نے سن رکھی ہیں ان سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حضرت یا تو بہت دلیر تھے اور یا پھر پاگل۔ ناہنجار اپنی خبیثانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہماری اصلاح کرتے ہوئے ہمیشہ کہتا ہے کہ پاگل کہہ کر اسے خواہ مخواہ کا کریڈٹ مت دو‘ وہ تو پرلے درجے کا بے وقوف شخص ہے۔ بہرحال‘ بے وقوف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے اندر بہادری اور بزدلی کے خواص رکھتا ہے مگر چونکہ بے وقوف ہوتا ہے‘ اس لئے دونوں کی ترتیب گڈ مڈ کرکے وہاں بزدلی دکھاتا ہے جہاں بہادر بننے کی ضرورت ہو اور اسی طرح جہاں بھاگنا بنتا ہو‘ وہاں چٹان کی طرح ڈٹ جاتا ہے۔ بگٹی کا قتل‘ لال مسجد اور میڈیا کی گوشمالی اس خصوصیت کی درخشاں مثالیں ہیں۔ چنانچہ اس خیال کے پیش نظر ہم مشرف بارے اپنی واحد اچھی رائے بھی تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔
آج مشرف کے حوالے سے ایک دلچسپ بات ان کے ایک جانثار دوست بیرسٹر سیف نے کی ہے کہ ’’لارڈ نذیر دراصل نواز شریف کے طبلہ نواز ہیں اور ان کی دولت کے بل پر اچھل کود کر رہے ہیں‘‘۔ لارڈ نذیر آجکل مشرف کے خوب لتے لے رہے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے صبح و شام ان سے کوئی پرانا بدلہ لیتے نظر آتے ہیں۔ عزیزی نے اس حوالے سے ہمیں اطلاع یہ دی تھی کہ مشرف نے باوجود دو مرتبہ وقت دینے کے‘ لارڈ نذیر کے ساتھ ملاقات نہیں کی کیونکہ عین وقت پر کوئی نہ کوئی مصروفیت نکل آئی۔ لارڈ صاحب نے اس کا بہت برا مانا اور آج تک یہ پرخاش دل میں ہی رکھی ہوئی ہے تاہم مشرف کی اس حماقت میں اس وقت کی ہائی کمشنر ملیحہ لودھی کا بھی بڑا عمل دخل ہے کہ یہ خاتون چونکہ پڑھے لکھے باذوق لوگوں کی اکثریت کی طرح لارڈ نذیر صاحب کو زیادہ منہ لگانا پسند نہیں کرتیں‘ چنانچہ مشرف کو ملنے سے بھی یقیناً انہوں نے ہی روکا ہوگا۔
آج لارڈ نذیر نے یہ بشارت بھی دے ڈالی ہے کہ موصوف اپنے ہاتھوں سے مشرف کو عنقریب ہتھکڑیاں پہنانے والے ہیں ۔ اور شاید یہی بیان بیرسٹر سیف کی گفتگو کا محرک بنا ہوگا کہ لارڈ نذیر صاحب نواز شریف کی طبلہ نوازی کر رہے ہیں‘ ہماری اطلاع ہے کہ نواز شریف اور لارڈ صاحب نے لندن میں مشرف کا جو قانونی بندوبست کیا ہے‘ اس سے جان چھڑانا مشرف کیلئے یقیناً مشکل ہو گا۔
آخر میں ہم نوازشریف کو ایک بار پھر مطلع کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بھائی صاحب‘ اپنی سیکورٹی بے حد ٹائٹ کر دیں کیونکہ آپ نے بیک وقت بہت سے خطرناک ’’دوستوں‘‘ کی دم پر پیر رکھا ہوا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بی بی والا اندوہناک سین بار دیگر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے۔
خیر‘ باقی تمام باتیں تو مانی جا سکتی ہیں مگر ہم عزیزی ناہنجار کا یہ کہنا تسلیم نہیں کرتے کہ مشرف بلا کے بزدل اور ڈرپوک ہیں۔ ہمارا ذاتی مشاہدہ تو اس کے برعکس ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہم مشرف کو بس دور دور سے ہی جانتے ہیں ان کی قربت سے اللہ نے ہمیں بال بال بچا لیا ورنہ آج ہمارا حشر بھی اس مغینہ والا ہوتا جو مری کے ایک ریسٹ ہائوس سے چیخیں مارتی نکلی اور مبینہ طور پر ایک طرف بھاگ اٹھی کہ یہ بیہودہ روایت بھی چونکہ عزیزی کے ذہن پراگندہ کی پیداوار ہے اس لئے ہم اس پر من و عن یقین تو نہیں کرتے البتہ بطور تمثیل پیش ضرور کر سکتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی مشرف کی بزدلی کی تو ہمارے بعض انتہائی باخبر دوستوں کا کہنا یہی ہے کہ مشرف واقعی بلا کا بزدل ہے اور محض اپنے خوف پر قابو پانے کیلئے جعلی شورشرابہ کرتا رہتا ہے‘ اس شخص کی طرح جو اندھیری رات میں سڑک پر چلتے ہوئے با آواز بلند گانا گانے لگتا ہے! یہ تان بھی اتفاق سے گانے پر ہی آن کر ٹوٹی ہے مگر مشرف کی جو کہانیاں ہم نے سن رکھی ہیں ان سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حضرت یا تو بہت دلیر تھے اور یا پھر پاگل۔ ناہنجار اپنی خبیثانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہماری اصلاح کرتے ہوئے ہمیشہ کہتا ہے کہ پاگل کہہ کر اسے خواہ مخواہ کا کریڈٹ مت دو‘ وہ تو پرلے درجے کا بے وقوف شخص ہے۔ بہرحال‘ بے وقوف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے اندر بہادری اور بزدلی کے خواص رکھتا ہے مگر چونکہ بے وقوف ہوتا ہے‘ اس لئے دونوں کی ترتیب گڈ مڈ کرکے وہاں بزدلی دکھاتا ہے جہاں بہادر بننے کی ضرورت ہو اور اسی طرح جہاں بھاگنا بنتا ہو‘ وہاں چٹان کی طرح ڈٹ جاتا ہے۔ بگٹی کا قتل‘ لال مسجد اور میڈیا کی گوشمالی اس خصوصیت کی درخشاں مثالیں ہیں۔ چنانچہ اس خیال کے پیش نظر ہم مشرف بارے اپنی واحد اچھی رائے بھی تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔
آج مشرف کے حوالے سے ایک دلچسپ بات ان کے ایک جانثار دوست بیرسٹر سیف نے کی ہے کہ ’’لارڈ نذیر دراصل نواز شریف کے طبلہ نواز ہیں اور ان کی دولت کے بل پر اچھل کود کر رہے ہیں‘‘۔ لارڈ نذیر آجکل مشرف کے خوب لتے لے رہے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے صبح و شام ان سے کوئی پرانا بدلہ لیتے نظر آتے ہیں۔ عزیزی نے اس حوالے سے ہمیں اطلاع یہ دی تھی کہ مشرف نے باوجود دو مرتبہ وقت دینے کے‘ لارڈ نذیر کے ساتھ ملاقات نہیں کی کیونکہ عین وقت پر کوئی نہ کوئی مصروفیت نکل آئی۔ لارڈ صاحب نے اس کا بہت برا مانا اور آج تک یہ پرخاش دل میں ہی رکھی ہوئی ہے تاہم مشرف کی اس حماقت میں اس وقت کی ہائی کمشنر ملیحہ لودھی کا بھی بڑا عمل دخل ہے کہ یہ خاتون چونکہ پڑھے لکھے باذوق لوگوں کی اکثریت کی طرح لارڈ نذیر صاحب کو زیادہ منہ لگانا پسند نہیں کرتیں‘ چنانچہ مشرف کو ملنے سے بھی یقیناً انہوں نے ہی روکا ہوگا۔
آج لارڈ نذیر نے یہ بشارت بھی دے ڈالی ہے کہ موصوف اپنے ہاتھوں سے مشرف کو عنقریب ہتھکڑیاں پہنانے والے ہیں ۔ اور شاید یہی بیان بیرسٹر سیف کی گفتگو کا محرک بنا ہوگا کہ لارڈ نذیر صاحب نواز شریف کی طبلہ نوازی کر رہے ہیں‘ ہماری اطلاع ہے کہ نواز شریف اور لارڈ صاحب نے لندن میں مشرف کا جو قانونی بندوبست کیا ہے‘ اس سے جان چھڑانا مشرف کیلئے یقیناً مشکل ہو گا۔
آخر میں ہم نوازشریف کو ایک بار پھر مطلع کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بھائی صاحب‘ اپنی سیکورٹی بے حد ٹائٹ کر دیں کیونکہ آپ نے بیک وقت بہت سے خطرناک ’’دوستوں‘‘ کی دم پر پیر رکھا ہوا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بی بی والا اندوہناک سین بار دیگر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے۔