ضیاءکو قبر سے نکال کر پھانسی دی جاتی تو مشرف آئین شکنی کی جرات نہ کرتے : وکیل وفاق ۔۔ کارروائی سے کون روک رہا ہے ? : جسٹس جواد

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + وقت نیوز + ایجنسیاں + مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ میں 18ویں ترمیم کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران وفاق نے موقف اپنایا ہے کہ آئین کے مطابق پارلیمنٹ کے سوا کوئی اور ادارہ آئین کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ عدالت کو آئینی ترمیم کے جائزہ کا اختیار نہیں‘ عدالتیں صرف تشریح کر سکتی ہیں۔ آئین میں بنیادی ڈھانچے کا تصور موجود نہیں۔ ریاستی اداروں کے اختیارات کی علیحدگی کا مقصد اداروں میں توازن قائم ہے۔ عدلیہ کو آئینی ترامیم کالعدم قرار دینے کا اختیار دینا پارلیمنٹ میں تیسرا ایوان بنانے کے مترادف ہو گا۔ وفاق کے وکیل بیرسٹر باچا خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر آئین کے آرٹیکل 6 پر عمل کرتے ہوئے برطانوی آمر جنرل کرامویل کی طرح ضیاءالحق کو قبر سے نکال کر پھانسی پر لگایا گیا ہوتا تو پرویز مشرف کو آئین شکنی کی جرات نہ ہوتی۔ آئین کے تحت پارلیمنٹ خودمختار ہے‘ آئین اپنی بالادستی کا خود محافظ ہے۔ عدالتوں کو آئین کی تشریح کا اختیار ہے مگر وہ اس کا جائزہ نہیں لے سکتیں۔ آرٹیکل 39 میں اس کا ذکر موجود ہے۔ عدلیہ کو پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ نظام کو ہمیشہ جرنیلوں نے پٹڑی سے اتارا‘ عدلیہ کو کوئی الزام نہیں دے سکتا۔ 18ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سترہ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں عدالت اس سے قبل بھی ترامیم کا جائزہ لے چکی ہے‘ یہ طے شدہ اصول ہے کہ عدالتیں ایسا کر سکتی ہیں۔ وفاق کے وکیل نے پرویز مشرف کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف بطور کرنل اچھی عینک نہیں خرید سکتے تھے آج وہ لندن کے مہنگے ترین علاقے میں رہائش پذیر ہیں‘ اس پر جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ کسی شخص کا تذکرہ مناسب نہیں خاص طور پر اس شخص کا تذکرہ جس کے بارے میں ہم کیس نہیں سن رہے‘ آپ اپنے دلائل دیں۔ بیرسٹر باچا خان نے جذباتی انداز میں کہا کہ ملکی خودمختاری کا سودا کرنے والے شخص کو میں کبھی معاف نہیں کر سکتا۔ بالادستی صرف آئین کی ہے وہ اپنی بالادستی کا خود محافظ ہے‘ آرٹیکل 39 کے تحت پارلیمنٹ خودمختار ادارہ ہے۔ اگر آئین کا آرٹیکل 6 نمائشی نہ ہوتا اور کرامویل کی طرح ضیاءالحق کو قبر سے نکال کر پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تو مشرف کبھی آئین توڑنے کی جرات نہ کرتے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے پوچھا کہ وفاق کو کون سی طاقت آئین شکنی کرنے والے کے خلاف کارروائی سے روک رہی ہے۔ آپ وفاق کے وکیل ہیں پوچھ کر بتائیں۔ بیرسٹر باچا نے کہا کہ موقع نہیں ملا جب بھی ہو سکا سوال ضرور اٹھاوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف اس کیس تک محدود رہیں۔ آپ کی ہر بات وفاق کا موقف سمجھی جائے گی۔ بیرسٹر باچا نے کہا کہ آئین کے تحت پارلیمنٹ ہی آئین میں ترمیم کر سکتی ہے اسے ایسا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے استفار کیا کہ کیا پارلیمنٹ پرآئینی ترامیم کے حوالے سے پابندی بھی عائد ہے؟ اس پر بیرسٹر باچا نے کہا کہ بھارت نے حال ہی میں بنیادی ڈھانچے میں ترامیم پر پابندی کا نظام اور تصور متعارف کرایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی ڈھانچے اور خدوخال کا تصور تو اس اسمبلی نے وضع کیا تھا جس نے قرارداد مقاصد منظور کی۔ وکیل نے کہا کہ برطانیہ میں کسی ادارے کو پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین ختم کرنے کا اختیار نہیں۔ جسٹس تصدق جیلانی نے کہا کہ آپ ایسے ملک کا حوالہ دے رہے ہیں جس کا آئین تحریری نہیں۔ بیرسٹر باچا نے کہا کہ برطانیہ میں بھی ہماری طرح ”کامن لائ“ رائج ہے‘ بہت سے یورپی ممالک میں عدالتوں کو عام قانون کے جائزے کا بھی اختیار نہیں۔ تاہم وہ عدالت کے استفسار پر اس حوالے سے تحریری حوالے پیش نہ کر سکے۔ جسٹس تصدق جیلانی نے کہا کہ بہت سے یورپی ممالک میں عدالتیں قوانین کے جائزے کا اختیار رکھتی ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بہت سے حوالوں سے ہمارے ہاں ”کامن لائ“ نہیں۔ جسٹس رمدے نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 189 میں تمام اداروں کو عدالتی فیصلوں کا پابند بنایا گیا ہے۔ بیرسٹر باچا نے کہا کہ عدلیہ کو پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ اب ملک میں بحران آیا تو خون خرابہ ہو گا۔ جسٹس رمدے نے کہا کہ آپ ہر بار عدلیہ کو کیوں ڈراتے ہیں کہ ایسا نہ کریں ورنہ خون ریزی ہو گی۔ بیرسٹر باچا نے کہا کہ نظام کو ہمیشہ جرنیلوں نے پٹڑی سے اتارا‘ عدلیہ کوئی الزام نہیں دے سکتا۔ بیرسٹر باچا نے کہا کہ ریاستی اداروں کے اختیارات کی علیحدگی کا تصور فرانس سے شروع ہوا۔ امریکی عدالت نے ایک کیس میں اس تصور کو مستقل حیثیت دی۔ عدلیہ کو آئین میں موجود الفاظ کی تشریح کا اختیار ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کا نہیں کہ ان الفاظ کو شامل ہونا چاہئے تھا یا نہیں۔ اگر یہ اختیار عدالتیں لے لیں تو پارلیمنٹ کا اختیار غصب کرنے کے مترادف ہو گا۔ ہمارے آئین میں بنیادی ڈھانچے کا تصور نہیں ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ وفاق اور آئینی اصلاحاتی کمیٹی بنیادی ڈھانچے کو تسلیم کر چکے ہیں۔ بیرسٹر باچا نے کہا کہ کمیٹی کے پاس بنیادی ڈھانچے کا تصور ہو گا مگر آئین میں نہیں۔ جسٹس رمدے نے کہا کہ کیا کمیٹی نے آئین کے خلاف رپورٹ تیار کی ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ 1977ءسے 2005ءتک 3 مقدمات میں سپریم کورٹ بنیادی ڈھانچے کو مسلمہ قرار دے چکی ہے۔ بیرسٹر باچا نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 175اے ججوں کی تقرری سے متعلق ماضی کے تجربات کو سامنے رکھ کر آئین میں شامل کیا گیا ہے۔ موجودہ چیف جسٹس ججوں کی تقرری میں دبا¶ قبول نہیں کریں گے مگر ممکن ہے کہ آگے چل کر صدر چیف جسٹس پر حاوی ہو جائیں اس خدشے کے پیش نظر ججوں کی تقرری کا اختیار ایک ادارے کو دا گیا۔ نئے طریقہ کار میں وزیراعظم بھی شامل ہیں کیونکہ پارلیمانی کمیٹی کے ارکان حکومت بھی نامزد کرے گی۔ اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ وسیم سجاد کہہ چکے ہیں کہ یہ نامزدگی قائد ایوان کرے گا اور ضروری نہیں وزیراعظم ہی قائد ایوان ہو۔ جسٹس رمدے نے کہا کہ وزیراعظم کو 8 ارکان میں سے صرف 2 کی نامزدگی کا اختیار ہ ے۔ اس کے بعد وزیراعظم کا اس عمل میں کوئی کردار نہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ممکن ہے وزیراعظم کو باہر رکھنے کا مقصد انتظامیہ کو ججوں کی تقرری سے الگ رکھنا اور غیر جانبداری برقرار رکھنا ہو۔ بیرسٹر باچا کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے کے آغا نے اپنے دلائل میں کہا کہ بھارتی عدالتوں کے دئیے ہوئے بنیادی ڈھانچے کے تصور کو بنگلہ دیش کے علاوہ کسی ملک میں تسلیم نہیں کیا گیا۔ قرارداد مقاصد میں پارلیمنٹ کو عوام کی منشا کے اظہار کا ذریعہ قرار دے کر پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مسٹر آغا نے دلائل جاری تھے کہ کسی کی سماعت پیر 9 اگست تک ملتوی کر دی گئی۔ وقت نیوز کے مطابق سماعت کے دوران ماورائے آئین اقدام کرنے کے حوالے سے سابق صدر پرویز مشرف کا تذکرہ ہوا تو وفاق کے وکیل بیرسٹر باچا خان نے کہا کہ مشرف نے امریکہ کے ایک فون پر اپنی سرزمین امریکی استعمال میں دے دی تھی آئین کا آرٹیکل 6 نمائشی نہیں سابق صدر مشرف کے خلاف اس آرٹیکل کی خلاف ورزی پر اب بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔ بیرسٹر باچا خان نے مختلف غلط حوالے دئیے تو عدالت نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے باچا خان کو تنبیہ کرتے کہا کہ آپ وفاق کے وکیل ہیں آپ پر بھاری ذمہ داری ہے اس لئے سنجیدہ رویہ اختیار کریں آئین کے بنیادی ڈھانچے اور خدوخال کا تصور پارلیمنٹ نے واضح کر دیا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ سنجیدہ نوعیت کا کیا ہے آپ بالی وڈ اور بالی ووڈ کا ذکر نہ کریں۔ جسٹس شاکر اللہ جان نے کہا کہ کسی آئین میں بنیادی ڈھانچے کا لفظ نہیں ملے گا تاہم ہر آئین کا بنیاد اصول ہوتے ہیں اور ان سے پہلو تہی نہیں کی جا سکتی۔ بیرسٹر باچا خان نے کہا کہ برطانیہ میں کسی ادارے کو پارلیمنٹ کے منظور قوانین ختم کرنے کا اختیار نہیں جس پر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ یورپی ممالک میں آئینی عدالتیں قوانین کا جائزہ لے سکتی ہیں۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ وہ بات بتائیں جس کا ہمیں علم نہ ہو برازیل کی آئینی عدالت سپریم کورٹ سے بھی بڑی عدالت ہے۔ جی این آئی کے مطابق بیرسٹر باچا نے کہا کہ ماضی میں جرنیلوں نے حالات خراب کرنے کے لئے مختلف جواز بنائے مگر اس بار عدالت کا کندھا استعمال ہو سکتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت احتیاط کرے گی اور کسی کو عدالت کا کندھا استعمال کرتے ہوئے حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

ای پیپر دی نیشن