مکرمی! ملک عزیز مسائل کے طوفان میں گھرا ہوا ہے۔ کس کس مسئلہ پر بات کی جائے بہرحال یہ بات طے ہے کہ مسائل جتنے بھی بڑھ جائیں انسانی طاقت سے نہیں بڑھتے اور اچھے لوگ بہتر حکمت عملی سے مسائل پر قابو پا ہی لیا کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ لوگ کبھی بھی منزل کو نہیں پاتے۔ جو غلط حکمت عملیوں پر نادم نہیں ہوتے چونکہ وہ نادم نہیں ہوتے اسلئے غلط راستے کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔ آج ہم بھی ایسی ہی حالت پر کھڑے ہیں۔ جہاں ہمیں سنجیدگی کے ساتھ ملک کی منزل کیطرف اپنی راہ کو سیدھا کرنا ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) نے بہت حد تک اپنی راہ کو درست کر لیا ہے لیکن جن مسلم لیگیوں نے پرویز مشرف کی حکومت میں شریک کا کردار ادا کیا یا جو پیپلزپارٹی کے اقتدار میں شریک ہیںیا وہ جو پارلیمنٹ میں نہیں ان کی مثال ”انگھور کھٹے ہیں“ جیسی ہے۔ ایسی مسلم لییگوں کے اتحاد سے مسلم لیگ کا ”نام“ تو کامیاب ہو سکتا ہے لیکن ترقی کا راستہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایسے اتحاد سے پیپلزپارٹی اور ڈکٹیٹر کوہی کامیابی حاصل ہو گی کیونکہ ان کی ہم خیال لیگیں ہی کامیاب ہونگی۔ لہٰذا مسلم لیگ (ن) کو راستہ کی درستگی کے بعد لیگوں کے انتخاب و اتحاد کی غلطی نہیں کرنی چاہئے لیکن اتحاد کے دروازہ کو بند بھی نہیں کرنا چاہئے صرف اتحاد کےلئے ایک ایجنڈا پر متفق ہونا اور پچھلی غلطیوں پر قوم سے معافی مانگنا ہی اصول قرار پانا چاہئے۔ (جہاں زیب قریشی 0300-8485836)
مقصد سلامت تو ”نام“ سلامت
Aug 06, 2012