ایک یونانی مفکر Diogenese ایتھنز کے بارونق بازار سے گزر رہے تھے اور اُن کے ہاتھوں میں ایک روشن لیمپ تھا، حالانکہ سورج پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آ رہا تھا، دن کا سماں تھا، لوگوں نے پوچھا کہ اے حضرت روشن دن ہے اور آپ لیمپ لے کر پھر رہے ہیں، کیا مطلب ہے، مفکر نے کہا کہ انسان کی تلاش ہے، لوگوں نے کہا کہ یہ آپ کے ارد گرد انسان نہیں، آپ نے کہا کہ یہ انسان نہیں ہیں حیوان ہیں۔
اولادِ آدم موجودہ دور میں جس قلبی، ذہنی، نفسیاتی، فکری، سیاسی، قومی اور معاشی پژمزدگی اور لایعنیت کا شکار ہے اس کا علاج شاید کسی حکیم کے پاس بھی نہ ہو ان جان لیوا عوارض کا مقابلہ صرف اور صرف علمی نقطہ نظر سے ہو سکتا ہے، علم بھی وہ جو قرآن الحکیم نے بنو آدم کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔ بیشک اللہ کے ذکر کے علاوہ دلوں کو تسکین میسر نہیں ہو سکتی لیکن دلوں کی تسکین اُس وقت ممکن ہو سکتی ہے جب کوئی انسان سب سے پہلے اپنی پہچان کا بندوبست کرے کہ وہ کیا ہے؟ اُسے کیا کرنا چاہئے؟ اُس کی صلاحیتیں اور فطری اقدار کیا ہیں، ظاہر ہے کہ علم کے بغیر یہ سبھی کچھ ناممکن نظر آتا ہے۔ حضور پاک محمد مصطفی نے علم کی دو اقسام بیان فرمائی ہیں، ایک علم وہ ہے جو صرف ذہن کا سرمایہ ہوتا ہے اور دوسرا وہ جو انسان کے قلب پر اثر انداز ہو کر انسان کی تعمیرِ انسانیت کا کام کرتا ہے۔ یہی علم دراصل جزو جان بن جاتا ہے اور شخصیتوں کی تعمیر و استحکام کا موجب بنتا ہے وگرنہ انسان اپنے اندر گونجتا رہا ہے اور اپنی منزل کا تعین نہیں کر پاتا۔
اولادِ آدم کی کم نصیبی یہ ہے کہ انہیں اپنے من میں ڈوب کر اپنے من کا سراغ لگانے کا وقت نہیں ہے جس کا نتیجہ ذہنی خلجان، نفسیاتی انتشار اور فکری یتیمی ہے۔
اب فلسفہ حیات یہ ہے کہ کوئی انسان بظاہر کتنا بھی مقصع اور مسجع گفتگو کا ماہر ہو، چہرے پر ضرورت کے وقت کتنے ہی خوبصورت تبسم سجا لے، لباس بھی اعلیٰ ترین زیب تن کر لے، اپنی علمی چودھراہٹ کے بل بوتے پر اُس کی معلومات کتنی ہی لامتناہی کیوں نہ ہوں یہ ممکن نہیں ہے کہ اس پر ایک بہترین انسان ہونے کا ”الزام“ لگایا جا سکے۔ خطرناک صورت احوال اس وقت وقوع پذیر ہوتی ہے کہ جب وہ علمی سطح پر تو قطب مینار تصور کیا جائے اور انسانیت کے تقاضوں کے پیش نظر انتہائی تاریک غار ثابت ہو، ایسی صورت احوال میں بے مرکز و بے محور انسان کو نہ تو قریبی بزرگوں کا احترام رہتا ہے اور نہ ہی اخلاقی اور انسانی تقاضوں کا خیال رکھتا ہے۔ اسے بعض اوقات یہ کہا جائے گا کہ اس نے اپنی انسانیت سے توبہ کر لی ہے اور اپنے مطالب و مقاصد کا بندہ ہو کر اپنی ذات کی نفی کر لی ہے۔ دراصل علمیت اور انسانیت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ علم سے مزین انسان خواہ اُس نے علم کے بیشمار معرکے مار رکھے ہوں اور بے شمار کتب بھی تصنیف فرما رکھی ہوں تو اگر یہ کہا جائے کہ نیک اور وفادار انسان ہو گا تو یہ اس لئے غلط ہے کہ یہ علم اُس کے انسانی اور ذاتی دائرہ عمل سے تعلق نہیں رکھتا۔ اگر آج کوئی انسان جرمنی، فرانس اور امریکہ کے اعلیٰ علمی سطح کی بے شمار ڈگریاں بھی حاصل کر آیا ہو تو یہ کہا جائے کہ وہ بہترین ہمسایہ یا اعلیٰ ترین دوست ہو گا تو اس علم کے بل بوتے پر الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ اعلیٰ انسان بھی ہو گا، یہی کیفیت و احوال ہم اپنے سیاست کاروں اور سیاسی قائدین کے حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شخصیات میں کس قدر تضاد موجود ہے اور وہ قومی اور سیاسی سطح پر کس قدر قومی رہنمائی کا حق ادا کر رہے ہیں اگر کرپٹ اور بددیانت ہیں تو قومی سطح پر اس کا انسانوں پر کیا اثر پڑے گا۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے جس کی ذاتی تقدیر میں وہ جانوروں اور درندوں سے بھی بڑھ جانے کی صلاحیت اور قوت رکھتا ہے، شیر کے بارے میں حتمی اصول ہے کہ وہ چیر پھاڑ کرتا ہے۔ ریچھ، بلی اور لومڑ کی اپنی تقدیر ہے، لیکن اولادِ آدم میں یہ تمام تقدیرات اور خصائل جمع ہیں وہ جب جی چاہے چیر پھاڑ کرنا شروع کر دے اور جب جی چاہے بلی اور لومڑ کی شکل اختیار کر لے یہ تمام تر اوصاف یا توفیق اُسے میسر ہیں۔ گویا انسان ایک ایسا دوپایہ ہے کہ وہ جس وقت چاہے، اپنے اندر حیوانیت، جانوریت اور بہمیت کا اظہار کر کے اپنے وجودی انسان کی نفی کر لے، اور مقام آدمیت سے اور شان انسانیت سے ناآگاہ ہو کر چلتی پھرتی لاش بن جائے۔