11مئی کے اتنخابات کے بعد 30جولائی کو صدارتی انتخاب کا مرحلہ بھی خیرو خوبی کے ساتھ تکمیل کو پہنچ گیا۔ 9ستمبر سے شروع ہونیوالی صدارتی معیاد کیلئے سید ممنون حسین 432ووٹ لیکر ملک کے 12ویں صدر منتخب ہو چکے ہےں۔ پاکستان پیپلز پارلیمنٹرین پارٹی (PPPP)نے اس انتخاب کا بائیکاٹ کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں اےک زےادہ آرا ہو سکتی ہے۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جمہوریت کے استحکام کے حوالہ سے اس کی کارکردگی بہتر رہی۔ اس دور میں پارلیمنٹ کے اندر آئینی ترامیم کے ذرےعے آئین کو کسی حد تک اصل شکل میں بحالی عمل میں آئی۔ عشروں پرانا صوبائی خودمختاری کا مسئلہ حل ہوا۔ اعلیٰ عدلےہ انتظامےہ کے اثر سے مکمل طور پر آزاد ہو ئی۔ الےکشن کمیشن کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کے ذرےعے کروانے سے انکی غیر جانبداری مضبوط ہوئی۔ میڈیا کے احتسابی کردار کو بالعموم خوش دلی سے گوارا کیا جاتا رہا۔ عدلےہ سے بسا اوقات محاذ آرائی کی کیفیت کے باوجود آخری مراحل میں عدالتی فیصلے تسلیم کئے جاتے رہے۔ جمہوری استحکام کے اس عمل میں بلاشبہ عدلےہ، میڈیا، عسکری قیادت اور پوری قوم کی بالغ نظری اور صبر و تحمل کا حصہ ہے۔ تاہم صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کا ےہ جواز کہ سپریم کورٹ نے اسکی تاریخ بدلنے کے حق میں فیصلہ دی دیا۔ قابل فہم محسوس نہیں ہوتا۔ اب صدارتی الےکشن نے سیاسی کشیدگی بڑھا دی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی جارہانہ سیاست کی راہ پر گامزن ہوتی نظر آرہی ہے۔ صدارتی انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ نے اسے اےک واضح پوزیشن دے دی ہے اور آنیوالے دنوں میں پیپلز پارٹی حالات کو مدِ نظر رکھ کر خاصے سخت فیصلے کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے 24جولائی کے فیصلے کیمطابق پاکستان کی ریاست کے سب سے بڑے عہدے کا انتخاب 6اگست کی بجائے 30جولائی کو ہوا اور یوں 11مئی کو شروع ہونیوالے انتخابات کا اےک اہم مرحلہ مکمل ہو گیا۔ صدارتی انتخابات کے شیڈول میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر تبدیلی نے جہاں ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ وہاں اس حوالہ سے الےکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی اختلافات سامنے آنے شروع ہو گئے ہےں۔ 18ویں ترمیم کے بعد تشکیل نو پانے والے الےکشن کمیشن بھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے الزامات کی زد میں آگیا۔ الےکشن کمیشن نے جب ملک میں صدارتی انتخاب 6اگست کو کرانے کا فیصلہ کیا اور اِسی حوالے سے نہ صرف شیڈول جاری کر دیا بلکہ دیگر انتظامات بھی مکمل کر لئے۔ اسی دوران وزارتِ قانون و انصاف و پارلیمانی امور نے الےکشن کمیشن آف پاکستان کو خط لکھا کہ صدارتی شیڈول میں تبدیلی کی جائے۔ حکومت پاکستان کا موقف تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی وجہ سے پارلیمان کے اکثر ارکان عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب گئے ہوں گے اور اِسکے ساتھ ساتھ بھاری تعدادمیں ارکان اسمبلی اعتکاف میں بھی بیٹھیں گے۔ الےکشن کمیشن آف پاکستان نے حکومت پاکستان کا موقف مسترد کر دیا۔ اِسی دوران پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سنیٹر راجہ ظفر الحق نے اس شیڈول میں تبدلی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا اور سپریم کورٹ نے فوری طور پر الےکشن کمیشن سے جواب طلب کر لیا۔ اس موقع پر الےکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ اور صوبہ سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے ارکان بھی الےکشن کمیشن آف پاکستان میں موجود تھے۔ جب کہ پنجاب سے الےکشن کمیشن کے ممبر بیرون ملک میں تھے۔ چیف الےکشن کمشنر اس بات پر زور دیتے رہے کہ جو شیڈول الےکشن کمیشن آف پاکستان نے جاری کر دیا ہے وہ بالکل درست ہے اور الےکشن کمیشن کو عدالت میں اپنے مو¿قف پر قائم رہنا چاہےے۔ تاہم 18ویں ترمیم کے نتیجے میں چیف الےکشن کمشنر کے اختیارات برائے نام رہ گئے ہےں اور ان کی حیثیت بھی اےک ممبر جتنی ہے۔ اگر کل 5ارکان مےں سے کوئی تےن اےک طرف ہو جائیں تو فیصلہ وہی ہو گا جدھر اکثریت ہو گی۔ جس پر چیف الےکشن کمشنر خود کو بے بس محسوس کرتے ہےں۔ صدارتی شیڈول کے حوالے سے بھی ایسا ہی ہوا جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے الےکشن کمیشن آف پاکستان سے موقف طلب کیا تو چیف الےکشن کمشنر نے دیگر ارکان کے ساتھ مشاورت کی جس پر الےکشن کمیشن کے تین ممبران جو موجود تھے انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے اختلاف کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ جب کہ چیف الےکشن کمشنر کا موقف تھا کہ الےکشن کمیشن نے جو شیڈول جاری کر دیا ہے اسی پر قائم رہنا چاہےے۔ پنجاب کے ممبر الےکشن کمیشن جو اس موقع پر موجود نہیں تھے ان سے بھی فون پر مشاورت کی گئی تو انہوں نے وہی جواب دیا ہو گا جو باقی تینوں نے دیا۔ وےسے تو صدرکا عہدہ علامتی نوعیت کا ہے ۔ موجودہ صورتحال میں ہمارا آئین صدر کو کوئی ایسا اختیار نہیں دیتا جو اسے غلام اسحاق خان یا آصف علی زرداری بنا سکے۔ ممنون حسین چاہیں بھی تو ووہ اپنی حدود سے باہر نہیں نکل سکیںگے۔ جو بات اہمیت رکھتی ہے وہ ےہ ہے کہ 2013ءمیں تبدیلی کا جو عمل عوام کے ہاتھوں گذشتہ حکومت کے مکمل طور پر مسترد کئے جانے سے شروع ہوا اس کا دوسرا مرحلہ ایوانِ صدارت میں آصف علی زرداری کی جگہ ممنون حسین کے براجحان ہو جانے سے طے پایا گیا ہے‘ اسکے بعد ہمارے آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان بھی اےک طویل مدت تک اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہنے کے بعد ماضی کا حصہ بن جائینگے۔ انکی جگہ نئے چہرے لیں گے جن کی سوچ بھی یقینا اپنی ہو گی۔گویا 2013ءبہت سارے نقطہ ہائے نظر سے تبدیلی کا سال بن جائیگا۔ 2013ءمیں جو اہم تبدیلیاں ہو رہی ہےں دعا ہے کہ تبدیلی کا ےہ سلسلہ ہماری تقدیر کو بھی اےک انقلابی انداز میں بدل ڈالے۔ بدی کی دلدل میں پھنسا ہوا پاکستان اب مزید ذلت و رسوائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگر ہمارے اندازِ حکمرانی اور اندازِ معاشرت میں کوئی بڑی تبدیلی نہ آئی تو پھر ہمارے سامنے اسکے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ جائیگا کہ ہم اس آئین کو بدل ڈالنے کی جدوجہد شروع کر یں جو ہمیں مایوسیوں اور اندھیروں کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔آج کے پاکستان میں فوج پر تنقید کرنا فیشن بن چکا ہے اور جب تک ہم دفاعی اداروں کے خلاف بیانات نہ دے دیں ہماری جمہوری پسندی کی سند جعلی معلوم ہوتی ہے۔ تاہم ےہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ فوج نے افغان مسئلے پر نہایت کمال سے اپنے پتے کھیلے ہےں۔ انہوں نے امریکیوں سے بگاڑ پیدا نہیں ہونے دیا اور ان کی بہت سی باتیں بھی نہیں مانیں۔ لےکن افسوس کہ وزیراعظم میاں نواز شریف تیزی کے ساتھ 12اکتوبر1999ءسے قبل کے نواز شریف بننے جارہے ہےں۔ وہ اس سیاسی زعم کے شکار ہوتے جارہے ہےں جس کے آصف علی زرداری ہو گئے تھے۔ قوم کی اکثریت نے عمران خان کے تبدیلی کے نعرے کی بجائے میاں نواز شریف کو اس امید کے ساتھ وزیراعظم منتخب کروایا کہ وہ تبدیل ہو گئے ہےں لےکن وزیراعظم نواز شریف اپنی ترجیحات اور کارکردگی سے پیغام دے رہے ہےں کہ وہ ہرگز تبدیل نہیں ہوئے۔ قوم نے انہیں وزیراعظم پاکستان منتخب کیا۔ لےکن ایسا تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ وہ پاکستان سے کم لاہور ، گوجرانوالا کے زےادہ وزیراعظم دکھائی دینے لگے ہےں۔ وزیراعظم نواز شریف کے بعض خاص دوستوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے بلاوجہ فوج کے ساتھ بدگمانیاں جنم لے رہی ہےں۔ زرداری حکومت کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ ان کو سرماےہ کارچلا رہے ہےں۔ اب وزیراعظم نواز شریف کی حکومت میں بھی بہت سے سرماےہ دار مختار بن گئے ہےں ۔ صدر زرداری کے دوست تو پھر بھی سرکاری خزانے سے براہِ راست مستفید نہیں ہو رہے تھے لےکن ان سرماےہ داروں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ نہ صرف اہم تقرریاں انکی منشاءسے ہو رہی ہےں بلکہ انہیں براہِ راست سرکاری خزانے سے بھی مستفید کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کو ان امور پر توجہ دے کر اصلاح کی کوشش کرنی چاہےے۔ لےکن اگر معاملات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو 12اکتوبر99کا وقت کسی اور شکل میں دوبارہ آسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اب کی بار نواز شریف کے ساتھ چند ساتھی بھی کھڑے نظر نہیں آئینگے جو 12اکتوبر99کے بعد انکے ساتھ کھڑے تھے،۔ اب کی بار قربانی دینے کے بجائے وہ وفادار بھی لندن میں رہائش کا انتظام کر یں گے۔