17ویں ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ گیارہ ممالک کے صدور کے ساتھ پاکستانی صدر زرداری نے بھی تقریب میں شرکت کی لیکن نئے صدر سے مذاکرات کرنے کے بجائے سابق صدر احمد نژاد سے ملاقات پر اکتفا کیا۔ پی ٹی وی اپنی جہالت اور لاعلمی کا ثبوت بلا جواز دیتا رہتا ہے۔ ایرانی صدر کی تقریب کو سائیڈ کے فریم پر دکھایا گیا جبکہ کسی عام موضوع پر ہونے والی گفتگو جاری رہی۔ پی ٹی وی کو کسی نے کہا تھا کہ اس طرح ادھوری کوریج سے اپنا امیج مزید خراب کرے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والوں کو چاہئے کہ سب سے پہلے عوام کو پی ٹی وی کے ماہانہ 35 روپے کے بل کو بجلی کے بل سے باہر نکالے (ویسے بجلی کے بل میں صرف صَرف شدہ بجلی کی قیمت ہونی چاہئے) ۔
ایران کے نئے صدر حسن روحانی اعتدال پسند صدر ہیں اپنی پہلی تقریر میں ایرانی صدر نے امریکہ کو مذاکرات کرنے کی دعوت دی ہے۔ امریکہ دنیا بھر میں جنگیں کرنے کے بعد آخرکار اس نتیجہ پر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ جنگ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس لئے ہر ملک میں جنگ ختم کرنے کیلئے آخر میں مذاکرات کا راستہ اپنایا جاتا ہے۔ آجکل افغانستان میں بھی یہی پریکٹس شروع کی جا چکی ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ شاید امریکہ 2014ءمیں نیٹو افواج کے ساتھ افغانستان چھوڑ دے گا لیکن حقیقت میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا کیونکہ حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنیوالے امریکی وزیر خارجہ نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بالکل صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ 2014ءمیں اپنی پوری فوج افغانستان سے نہیں نکالے گا۔ اتنے عرصہ میں اگر افغانستان میں امن و امان قائم نہیں ہو سکا کہ پاکستان میں افغان پناہ گزین واپس افغانستان جا سکتے تو پھر امریکہ کے افغانستان میں امن قائم کرنے کا بھی وہی حشر ہو گا جو عراق میں ہوا ہے جہاں مختلف دھڑے روزانہ ایک دوسرے کو بموں سے اڑا رہے ہیں۔ افغانستان بھی مختلف گروپ کے قبضہ میں ہے اس لئے وہاں کسی صورت میں بھی امن قائم نہیں ہو سکتا البتہ پاکستان کو اس جنگ کے خوفناک نتائج برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ ایرانی صدر حسن روحانی خطے کی صورتحال سے پوری طرح آگاہ ہیں یہی سبب ہے کہ انہوں نے مذاکرات کی گیند امریکہ کی کورٹ میں پھینکتے ہوئے ایک طرف تو مذاکرات کی آفر کی ہے لیکن اسکے ساتھ ہی واضح کر دیا ہے کہ مذاکرات کی آفر کو ایران کی کمزوری نہ سمجھا جائے کیونکہ ایران نہ تو پابندیوں کیخلاف سر جھکائے گا اور نہ ہی وہ اپنے دفاع کیلئے جنگ کرنے سے ڈرتا ہے۔
یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اگر پاکستان جیسا ملک ایران کیساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے کو مکمل کرنے کی بات کرے تو فوراً امریکی دفتر خارجہ سے ایک بیان آ جاتا ہے جس پر پاکستان صرف زبانی جمع خرچ پر پائپ لائن تصورات میں تعمیر کرنے کے خواب دیکھتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت گیس کی کمی پاکستان کی معیشت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے یا تو پھر امریکہ اپنی دوستی کا عملی ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کو جوہری توانائی بھارت کی طرح دوسرے ممالک سے حاصل کرنے کی اجازت دلوائے ورنہ پھر پاکستان پر بلاجواز تنقید کا سلسلہ بند کرے کیونکہ پاکستان کی معیشت کو ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھا کر بہت زیادہ فائدے حاصل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت صرف چین ڈنکے کی چوٹ پر ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے کیونکہ چین امریکہ کی طرح ایک بڑی اقتصادی قوت بن چکا ہے اور پوری دنیا اسے دنیا کی بڑی طاقت تسلیم کرتی ہے اسلئے امریکہ چین کو ڈرانے دھمکانے سے گریز کرتا ہے ورنہ فوراً اعلان کر دینا تھا کہ چین ایران سے تیل کی خریداری بند کرے۔
دلچسپ بات ہے کہ امریکہ دل سے یہی چاہتا ہے کہ ایران کیساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونا چاہئے لیکن اسرائیل کی یہ خواہش نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ کسی قیمت پر بھی اسرائیل کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لے سکتا۔ اسرائیل کے نیتن یاہو نے نئے ایرانی صدر کے حلف اٹھانے کے بعد اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کا صدر تبدیل ہو گیا ہے لیکن اس کا ایجنڈا تبدیل نہیں ہوا ہے اور وہ اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ بس یہی ایک بات ایسی ہے جو ایران امریکہ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔