ادارہ منہاج القرآن کے پندرہ مقتولین کے بدلے کارکنوں کو پندرہ پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے کی اجازت کا فتوی اور جتھے بنا کر انکے گھروں پر دھاوا بولنے کی ہلاشیری کو کینیڈین شیخ الاسلام نے اسلامی قصاص کا نام دیا ہے جو کسی طور پر اسلامی قصاص کی تشریح و تعبیر سے لگا نہیں کھاتا، طاہر القادری کے متذکرہ بیان کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ اسلام کے قصاص کے فلسفے کی قطعی نفی ہے قصاص اس قاتل سے لیا جاتا ہے جس پر قتل عمد ثابت ہو جائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیا جن پندرہ پولیس اہلکاروں کے قصاص میں قتل کا فتویٰ دیا گیا ہے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ ہی ادارہ منہاج القرآن کے مقتولوں کے قتل کا مرتکب ہوئے ہیں قصاص کا فیصلہ اور اس پر عملدرآمد مقتول کے ورثاء نہیں بلکہ قاضی یا اسلامی عدالت کا جج کرتا ہے طاہر القادری نے اپنے جن پیروکاروں کو پندرہ پولیس والوں کو قتل کرنے پر اکسایا ہے کیا وہ ان مقتولین کے ورثاء یا لواحقین ہیں طاہر القادری نے پندرہ پولیس والے قتل کرنے کے حوالے سے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس شہر کے پندرہ پولیس والے قتل کئے جائیں یہ واقعہ کیونکہ لاہور میں ہوا ہے اس لئے سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کا تعلق لاہور سے ہے لیکن جائے وقوعہ پر تو صرف ماڈل ٹائون تھانے کے پولیس والے ہی نہیں تھے شہر بھر کے مختلف تھانوں سے پولیس طلب کی گئی تھی ابھی معاملے کی تفتیش جاری ہے اور یہ تعین نہیں ہو سکا ہے کہ کن پولیس والوں کی گولیوں سے وہ نشانہ بنے تھے یہ تو پاکستان بالخصوص پنجاب کا جاہلانہ سماجی رویہ ہے کہ اگر اپنے مقتول کا قاتل ہاتھ نہ لگے تو اس کے جو اور جتنے قریبی رشتہ دار ہاتھ لگیں انہیں قتل کر دیا جائے یہ کسی طور اسلامی قصاص کا فلسفہ نہیں ہے خود کو شیخ الاسلام کہلوانے والا ایسی بات کرے تو اس پر ایں چہ بوالعجبی است ہی کہا جا سکتا ہے۔ دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ جائے وقوعہ پر گولیاں چلانے والے صرف پندرہ پولیس والے تو نہیں تھے بلکہ کئی درجن تھے اس لئے ہو سکتا ہے ایک شخص تین یا چار پولیس والوں کی گولیوں سے مرا ہو پھر تو یہ تعداد پندرہ سے کم ہو جائیگی اس کا مطلب ہے کہ پندرہ قصاص کی نذر ہونے والوں میں چند بے گناہ بھی شامل ہونگے اور انکے قتل کا گناہ کس کے سر جائیگا۔ قادری صاحب نے دھمکی دی ہے کہ اگر 10 اگست کو یوم شہداء کو پرتشدد بنایا گیا تو پھر دمادم مست قلندر ہو گا اور ہمارا یوم شہدا جاتی عمرہ کے اندر منایا جائے گا یہ بھی کارکنوں کو اشتعال دلانے کی کوشش ہے اشتعال کا منطقی نتیجہ تشدد ہوتا ہے اور تشدد کے بطن سے تباہی جنم لیتی ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری کی اس اشتعال انگیزی سے لگتا ہے انہیں اپنے دوسرے انقلاب مارچ کی ناکامی کا احساس ہونے لگا ہے پہلے مارچ اور دھرنا کی طرح ان کے انقلابی لشکر میں انکے تعلیمی اداروں کے طلباو طالبات، ملازمین اور مریدین ہی شامل ہوتے ہیں عوامی سطح پر وہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اسلام کے نام پر سیاست کر رہے ہیں انکے افعال اعمال کے حوالے سے اسلام پر انگشت نمائی ہو سکتی ہے اس لئے بہتر ہے کہ وہ آئین کے دائرے میں جمہوری انداز سیاست کو اپنائیں اس ملک میں سیاست کرنا اور اسکے ذریعہ مسند اقتدار تک پہنچنا ان کا جمہوری حق ہے وہ خود کو شیخ الاسلام کہلواتے ہیں اور میرا اندازہ ہے اگلا لقب ’’امام‘‘ ہو سکتا ہے اس لئے انکے رویوں کو انتہائی سنجیدگی اور متانت کا عکاس ہونا چاہئے وہ آئندہ انتخابات تک ملک بھر میں اپنی پارٹی عوامی تحریک کو منظم کریں عوام میں مقبول بنائیں ملک میں امیدوار کھڑے کریں اور عوامی مینڈیٹ حاصل کر کے حکومت بنائیں اور ملک بھر میں مثالی حکومت قائم کریں دوسری اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کینڈا کے بھی اتنے ہی شہری ہیں جتنے پاکستان کے ہیں کیا وہ کینیڈا میں اس طرح کی سیاست کر سکتے ہیں باقاعدہ شہری ہونے کے ناطے انہیں کینیڈا میں بھی سیاست کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔جہاں تک پندرہ پولیس والوں کو قصاص میں قتل کرنے کا تعلق ہے اور وہ بھی انکے گھروں پر جتھے بنا کر دھاوا بول کر کیا یہ اسلام کے فلسفہ قصاص کے مطابق ہے ممتاز بریلوی علماء ڈاکٹر آصف اشرف جیلانی، مفتی منیب الرحمن، علامہ راغب نعیمی اور ڈاکٹر علی اکبر الازہری عوام کی رہنمائی کریں۔