ویسے تو اسلام آباد اور لاہور کیلئے اگست کے پہلے دو ہفتے ٹریفک جام‘ کی پیشگوئی کر رہے ہیں کچھ یوم آزادی کی تقریبات کے باعت اور کچھ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسے جلوسوں کی وجہ سے لیکن لاہور کا ایک قدم ایسا ہے جو ان تمام وجوہات سے ہٹ کر بھی ہمیشہ ٹریفک جام کا منظر پیش کرتا رہتا ہے اور وہ ہے نہر لاہور پر لاہور کے عین درمیان میں جو بچہ پھاٹک اور ناچ گھر پھاٹک کا مقام۔ لاہور بدل گیا۔ میاں شہبازشریف نے میٹرو بس سروس کے ذریعے جاتی عمرہ کے مضافات کو شاہدرہ سے مضافات ملا دیا۔ ایسی رواں دواں سروس فراہم کی بنیاد پر پورے پنجاب میں عوام کی اکثریت کے ووٹ لے لئے‘ لاہور میں کتنے ہی چوکوں کو سگنل فری بنانے کیلئے اربوں روپے خرچ کر دئیے۔ لاہور کے ایک حصے کو مغربی دنیا کی بستیوں کے مقابل لا کھڑا کیا مگر ان کی نظر لاہور کے ان عوام پر جو نصف لاہور پر مشتمل ہیں اور نہیں دھرمپورہ کا انڈر پاس کراس کرنے کے بعد آگے بی آر بی نہر تک درجنوں آبادیوں تک جانا ہوتا ہے۔ ابھی تک نہیں پڑی۔ صدر ‘ مغلپورہ سے آگے کئی کلومیٹر تک پھیلی درجنوں بستیوں کے لوگ بار بار چیخ و پکار کرتے رہے کہ جو بچہ پھاٹک اور ناچ گھر پھاٹک پر ایک فلائی اوور سے روزانہ گھنٹوں ‘ ٹریفک سے پھنسے لاکھوں لوگوں کو عذاب سے نجات دلائی جا سکتی ہے مگر چودھری صاحب نے مسلم ٹائون انڈر پاس کو ترجیح دی‘ پوچھا جا سکتا ہے کہ ان پھاٹکوں کا مسئلہ کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ شاہراہ قائداعظم اورفیروز پور روڈ کی طرح لاہور کی خوبصورتی کا مرکز نہر لاہور کے دونوں کناروں پر شاہراہیں ہیں جو پورے لاہور کی بغلی سڑکوں کے ساتھ مل کر لوگوں کی آمد و رفت کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ نہر کی ان شاہراہوں پر ٹھوکر نیاز بیگ سے دھرمپورہ تک متعدد انڈر پاس موجود ہیں۔ دھرمپورہ سے آگے جو بچہ پھاٹک اس ریلوے پٹڑی کا ہے۔ جو بھارت تک مسافروں اور مال گاڑیوں کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ اس پھاٹک سے آگے نہر پر ہی تقریباً 100 گزر کے فاصلے پر ناچ گھر پھاٹک ہے جو لاہور کے ڈرائی پورٹ تک ریلوے شہری کیلئے بنا ہے۔ ان دنوں پھاٹکوں کو دن میں کئی بار کھولا اور بند کیا جاتا ہے ان دونوں پھاٹکوں تک آنیوالی دونوں طرف کی ٹریفک انڈر پاسوں سے گزر کر آتی ہے اور آگے بلاک ہو جاتی ہے چنانچہ ٹرین اگر گزرنے میں 15 منٹ لگائے تو ٹریفک ایک گھنٹے تک پھنسی رہتی ہے۔ لاہور میں ریلوے پھاٹک جہاں بھی تھے۔ بہت عرصہ پہلے ان کیلئے منصوبے بنائے گئے۔ لبرٹی اور کیولری گرائونڈ کے درمیان پھاٹک پر فلائی اوور میاں شہباز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں بنا دیا تھا شیر پائو پل ‘ شاہراہ قائداعظم فلائی اوور فیروز پور روڈ فلائی اوور پہلے ریلوے پھاٹکوں کی وجہ سے مکمل کئے گئے حیرت کی بات ہے کہ لاہور کے ایک حصے میں ایک کے بعد دوسرے ٹریفک منصوبے کی تکمیل کا سلسہ جاری ہے مگر شہر کے دوسرے حصے میں ٹریفک کے پھاٹکوں کی وجہ سے سنگین مسئلہ کو حل کرنے کیلئے ابھی تک سوچا نہیں گیا۔ المیہ یہ بھی ہے کہ اس متاثرہ نظام کے ارد گرد کے علاقے سے بھی مسلم لیگ ن کے ارکان صوبائی اور قومی اسمبلی ہیں۔ لاہور کے اس مظلوم علاقے کے لوگوں کا یہ کہنا بجا لگتا ہے کہ چونکہ حکمران طبقہ بڑے سرکاری افسران اور دوسرے مقتدر حلقے لاہور کے اس حصے میں رہائش پذیر ہیں اس لئے کسی کو اس مسئلہ کو حل کرنے کی فکر نہیں ہوتی گذشتہ ایک برس کے دوران وقفے وقفے سے اہل درد کی طرف سے مسئلہ کی سنگینی پر مشتمل بینر بھی آویزاںکئے جاتے رہے ہیں مگر کون سنتا ہے۔ درویش ‘ قہر درویش‘ برجان درویش ہم اس کالم کی صورت میں ایک بار پھر ارباب اختیار کو متوجہ کر رہے ہیں کہ لاہور تب لاہور بنے گا جب لاہور میں چاروں طرف ایک جیسی ترقی ہو گی ۔ ابھی تو یہ حال ہے کی نہر لاہور پر مغل پورہ سے آگے نہر پر معروف ترین چوکوں پر نہ ٹریفک سگنل ہیں نہ ریگولر ٹریفک پولیس کا اہتمام ہے ۔ لوگ خود ہی گرتے پڑے گھروں یا پھر ہسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔ ٹریفک جام ہونے کا موسم آ گیا ہے ۔ ٹریفک کھولنے کی تدابیر بھی ضروری ہیں ۔