یہ اللہ رب العزت کا سنہری راز ہے 27رمضان المبارک کو جس روز پاکستان کا وجود عمل میں آیا اسی روز مجید نظامی جہان فانی سے عالم جاودانی کو کوچ کر گئے۔ بلاشبہ ڈاکٹر مجید نظامی کی وفات نظریاتی صحافت اور نظریاتی حلقوں کیلئے ایک بہت بڑا دھچکہ ہے۔ انکی وفات سے جو خلا پیدا ہوا وہ کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ گو دور جدید میں بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال کے افکار اور نظریات کے پرچار کے حقیقی داعی اور چلتی پھرتی تصویر تھے۔ انہوں نے نظریہ پاکستان اور نظریاتی صحافت کے حوالے سے ایسے سنہری اصول اور زندہ روایت کو چھوڑا ہے جو کسی بھی صحافی کے ورثے اور حصے میں نہیں آ سکی۔ مجید نظامی 1928ء میں سانگلہ ہل میں میاں محمد دین نظامی کے گھر پیدا ہوئے۔ مجید نظامی کا شمار اپنے بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر ہوتا تھا۔ بانی نوائے وقت اور تحریک پاکستان کے عظیم لیڈر حمید نظامی مرحوم انکے بڑے بھائی تھے جبکہ حمید نظامی سے بڑی انکی ایک بہن بیگم سرداراں سراج تھیں۔ حمید نظامی کے بعد تحریک پاکستان و تحریک ختم نبوت کے نڈر کارکن اور میرے دادا بشیر نظامی مرحوم گھر میں بڑے بھائی تھے۔ انکے بعد محترمہ طلعت اکبر مرحومہ مجید نظامی کی بڑی بہن تھیں انکے بعد ڈاکٹر مجید نظامی اپنے سب سے چھوٹے بھائی خلیل نظامی مرحوم سے بڑے تھے۔ مجید نظامی نے اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی صحافت کا آغاز کر دیا تھا اور وہ فطری طور پر ایک دبنگ اور نظریاتی صحافی تھے۔ انہوں نے مسلسل 72 سال تک صحافت کے پیشے سے منسلک رہ کر اور 52 سال تک قومی اخبار نوائے وقت کی ادارت سنبھال کر ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا جو یقیناً خدا کی طرف سے انہیں ایک ایسا تحفہ اور عنایت تھی جس کا کوئی نعم البدل نظر نہیں آتا۔ مجید نظامی نرم دل، باوقار اور ہر موقع پر اپنی بات کہہ دینے کا ہنر رکھنے والی شخصیت تھے۔ انہوں نے شعبہ صحافت میں ہمیشہ نوجوانوں کی سرپرستی کی اور اس طرح سے صحافت کے میدان میں بہت سارے قابل اور ہنرمند صحافیوں کو اجاگر کیا اور کارزار صحافت کو بہت بڑے بڑے نام اور قدآور شخصیات فراہم کرتے رہے۔ انکی وفات ایک ایسا سانحہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ نظریہ پاکستان، کشمیر ایشو، عالم اسلام کی سربلندی اور حقوق کی جنگ، دو قومی نظریہ، بھارت کے بارے میں دوٹوک موقف، کالاباغ ڈیم، اندرون ملک فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ختم نبوت کیلئے عظیم تر کردار انکے نظریات کا ایسا خاصہ ہیں جنہیں تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔ انہوں نے میرے ساتھ بھی ہمیشہ پیار کرنیوالے بزرگوں جیسی شفقت روا رکھی۔ وہ صحافت کے رموزو اوقاف کسی بھی صحافی کے اندر اپنے ہنرمندانہ انداز سے سمونا جانتے تھے۔ 2001ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے قلمی نام سے مضامین لکھنے کا ٹوٹا پھوٹا سلسلہ شروع کیا۔ میرا پہلا مضمون مجیب الرحمن شامی نے روزنامہ پاکستان میں شائع کیا۔ اس وقت میں ڈرتا نوائے وقت میں مضامین ارسال نہیں کرتا تھا کہ کہیں علم نہ ہو جائے کہ یہ قلمی نام میرا ہے، پھر دھیرے دھیرے نوائے وقت میں بھی جب مضامین ارسال کرنے شروع کئے تو قلمی نام ہونے کے باوجود مجید نظامی نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ تحریر کس کی ہوتی ہے لہٰذا 2004ء میں جب میں نے بی کام کا امتحان پاس کیا تو ڈاکٹر مجید نظامی نے میرے والد احمد کمال نظامی کو اپنے گھر میں ملاقات کے دوران کہا کہ جمال سے کہیں کہ وہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں اجلاسوں اور تقریبات کی کوریج کیلئے جایا کریں اور کامرس رپورٹس دیا کریں۔
صحافت میں آنے سے پہلے ان سے ملاقات اکثر تب ہوا کرتی تھی جب میرے والد احمد کمال نظامی اور والدہ مجھے لاہور انکے گھر لے جایا کرتے تھے وہ اکثر مختلف صفحات کا مطالعہ کرنے میں مصروف ہوتے تھے جن کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ ان پر منظوری کے دستخط کرتے۔ وہ بیشتر غیرملکی جرائد کا بھی بطور خاص مطالعہ کرتے تھے، انکی ملکی اور بین الاقوامی ایشوز پر بہت زیادہ دسترس تھی۔ انہوں نے ہی پاکستانی صحافت میں کسی اردو اخبار میں پہلی مرتبہ انگریزی جرائد اور اخبارات کے بین الاقوامی سطح کے مضامین کے تراشے ادارتی صفحہ پر شائع کرنے شروع کئے تھے۔ وہ خبر کی اہمیت کو خوب جانتے تھے اور اسے قابل اشاعت بنانا ان کی صحافتی ہنرمندی کا ایک اہم ترین اسلوب تھا۔
مجید نظامی نے ملکی سطح پر صف اول کی صحافت کرتے ہوئے بھی غیرمعروف لوگوں کو بھرپور انداز میں متعارف کرایا۔ ہر قاری کی طرف سے بھیجی جانیوالی تحریر کو قابل اشاعت بنا کر علاقائی مسائل کو حل کروانا اور انہیں حکمرانوں تک پہنچانے کا عوامی انداز صحافت وطن عزیز میں انہوں نے متعارف کروایا۔ مجید نظامی کی صحافت کا ایک بہت بڑا خاصا یہ بھی تھا کہ وہ اپنے کسی کارکن کو بہت زیادہ نالاں ہونے کے باوجود بیروزگار نہیں ہونے دیتے تھے اور جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا اسکی اصلاح کیا کرتے تھے۔ نوائے وقت کے چھوٹے سے چھوٹے قصبے کے نامہ نگار کو بھی حق حاصل تھا کہ وہ ڈاکٹر مجید نظامی سے لاہور آ کر شرف ملاقات حاصل کر سکتا تھا۔ اس وجہ سے اکثر و بیشتر مسائل حل ہو جایا کرتے تھے کیونکہ نیوز ڈیسک اور رپورٹرز کے درمیان اکثر ہی خبروں پر اعتراضات اور تشویش کا سلسلہ جاری رہتا ہے جسے وہ بخوبی حل کر لیا کرتے تھے۔ وہ انتہائی سادہ انسان تھے۔ ان کا رہن سہن اتنا سادہ تھا کہ اس میں گزر بسر کرنا کسی عام آدمی کے بس کا کام نہیں۔ ان میں وہ قدریں اور روایات تھیں جنہیں بھلا کر بھی نہیں بھلایا جا سکتا۔ انہوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ذریعے جو انقلابی کارہائے نمایاں سرانجام دئیے انہیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ جس طرح انکی بیٹی محترمہ رمیزہ مجید نظامی اب نوائے وقت گروپ کی ایڈیٹر انچیف کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں، پوری قوم کی دعا ہے کہ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صحافت اور ملک اور قوم کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیتی رہیں۔ وہ ہم میں نہیں رہے مگر آج بھی زندہ ہیں اور آئندہ بھی تاریخ کے اوراق میں زندہ و جاوید رہیں گے۔ پاکستان میں جب تک صحافت کی آزادی کا سلسلہ جاری رہے گا اس میں مجید نظامی کی قربانیوں، کاوشوں اور خدمات کو کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے آمریتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آزادی صحافت کی نہ صرف راہ ہموار کی بلکہ اس کا تعین کر کے منزل مقصود بھی تاقیامت صحافیوں کو دکھا گئے ہیں۔ یہ بات ٹھوس حقیقت ہے کہ برصغیر میں نظریاتی صحافت کا جب بھی نام آئیگا مولانا ظفر علی خان اور نظامی برادران کو تاریخ عقیدت کا سلام پیش کرتی رہے گی۔