ہمارا ایمان ہے کہ جو بھی مخلوق پیدا ہوئی ہے، جس جاندار کو بھی زندگی سے نوازا گیا ہے اسے بالآخر اپنا کردار ادا کر کے منطقی انجام کو بھی پہنچنا ہے۔ لاکھوں، کروڑوں انسان روزانہ آتے اور چلے جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا رضائے الٰہی کے مطابق چلے جانا بہت سارے صدموں کا باعث بھی ہوتا ہے اور ان کا خلاء انتہائی مشکل سے پر ہوتا ہے ایسی ہی شخصیت انتہائی قابل احترام مجید نظامی مرحوم کی بھی ہے جو اپنی ذات میں انجمن بھی تھے اور ان کی شخصیت بذات خود ایک ادارہ تھی۔ وہ خود بھی نوائے وقت تھے اور انہوں نے نوائے وقت اخبار کو بھی نوائے وقت اور عوام کی آواز بنا دیا تھا، جسے عقیدت اور احترام کے ساتھ دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔امید ہے کہ رمیزہ مجید نظامی اپنے والد محترم کی روایات کی امین ثابت ہونگی اور جو انہوں نے اپنے ادارے کیلئے نظریاتی اساس بنائی ہے اس کی مکمل حفاظت کریں گی۔
کیونکہ… مجید نظامی مرحوم محض ایک فرد نہیں تھے وہ ایک سوچ اور ایک نظریہ کے محافظ تھے اور یہ نظریہ وہ امانت تھی جو انہیں تحریک پاکستان کے ایک کارکن کی حیثیت سے حاصل ہوا تھا اور اس کی انہوں نے ترقی اور ترویج کے لئے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی یہی وجہ ہے کہ آج لوگ انہیں نظریہ پاکستان کے محافظ کے طور پر جانتے اور یاد کرتے ہیں اور ان کے جانے کے بعد وہ خود سے یہ سوال کر تے بھی سنائی دیتے ہیں کہ دو قومی نظریہ کا صادق اور امین کون ہوگا؟ اور کون ہے وہ جو نظریہ پاکستان کا دعوی بھی کریگا اور اس پر عملدر آمد کی خود کو مثال بنا کر پیش کریگا۔ اس تناظر میں مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں ، مجھے یہ خدشہ ہے کہ انکی موت کہیں نظریہ پاکستان کے نظریاتی محافظ کی موت نہ ثابت ہو۔ کیونکہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ نظریہ پاکستان سرکاری ، درباری اور مفاد پرست عناصر کی تو کوئی کمی نہیں لیکن جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے اور اپنے نظریہ سے وفاداری کا عملی ثبوت دینے والا تو شاید ہی کوئی ہو۔مجھے ایک مدت تک نظامی صاحب مرحوم و مغفور کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے وہ اپنے کارکنوں کے ساتھ جس محبت اور شفقت سے پیش آتے انہیں رہنمائی فراہم کرتے ان کی غلطیوں کو نظر انداز کر کے ان کی اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کر نے کا موقع دیتے، ان کا اپنے کارکن کے ساتھ سلوک مشفق اور مہربان جیسا ہوتا تو یہ سوچ بھی نمایاں ہوتی کہ کیا یہ وہی شخص ہے جو ذوالفقار علی بھٹو جیسے جاگیر دار اور جنرل ضیاء الحق جیسے ظالم ڈکٹیٹر کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا اور ان کے ریاستی اور انتظامی جبر کا مقابلہ کیا کرتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سرکاری اشتہارات کی ترسیل کو ریاستی جبر کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ ابھی پرائیوٹ شعبہ اتنا مضبوط ہوا تھا اور نہ ہی وہ مارکیٹنگ کے نئے اصولوں سے آشانا ہوا تھا۔ ملٹی نشنل کمپنیاں بھی پاکستان میں انتہائی کم تھیں جو مارکیٹنگ کے لئے میڈیا کو اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے اہم سمجھتی تھیں۔ بہر حال اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ’’ نوائے وقت ‘‘ نے مجید نظامی مرحوم کی سربراہی میں پاکستان میں جمہوریت کی بحالی استحکام اور جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ قابل تحسین تھی ہے اور پاکستان کی سیاسی اور صحافتی تاریخ کا سنہری باب بھی ہے جسے آج کے اداروں اور اس کے سربراہوں کے لئے بھی مشعل راہ ہے۔ یہ الگ بات کہ آج کی صحافت بھی تبدیل ہوگئی ہے، مارکیٹ اکانومی نے اس کی ترجیحات بھی تبدیل کر دی ہیں مگر مجید نظامی مرحوم کا بنایا ہوا ’’ نوائے وقت‘‘ اپنے اصولوں کا امین ہے اور اس سے آئندہ بھی ایسی ہی توقع ہے۔ یہ چراغ اپنی روایت کے مطابق روشنی بکھیرتا اور اندھیروں کو ختم کرنے کا فرض ادا کرتا رہے گا۔ ’’ نوائے وقت‘‘ کی قیادت اور کارکن مجید نظامی مرحوم کے چھوڑے ہوئے قدموں کے نشان پر نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کے چراغ روشن کرتے رہیں گے۔ تو ان کی عدم موجودگی اور احساس بھی نہیں ہوگا۔…؎
وارث شاہ اوہ سدا ای جیوندے نیں
جنہاں کینیاں نیک کمائیاں نیں