الطاف حسین ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہیں ۔اِس مرتبہ اُنہوں نے مہاجروں کے نام نہاد قتل عام پر پاکستان میں فوجی مداخلت نہ کرنے پر بھارتی فوج اور ایجنسیوں کو بزدل قرار دیتے ہوئے مہاجروں کو امریکہ اور نیٹو فوج سے مدد طلب کرنے کا مشورہ دیا ہے چنانچہ اُنہوں نے اپنے منفی دائرہ کار کو بھارتی انٹیلی جنس ، را ، اور MI6 سے آگے امریکہ اور نیٹو تک بڑھا دیا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الطاف حسین کی آئین سے ماورا¿ سیاسی موشگافیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے محب وطن ارکان بھی کافی پریشانی کا شکار ہیں کیونکہ ریاست ڈلس امریکہ میں الطاف حسین کے اس خطاب پر پاکستانی پارلیمنٹ بشمول صوبائی اسمبلیوں میں سخت ردعمل ہوا ہے اور الطاف حسین کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کی قراردادیں پیش کی گئی ہیں جبکہ آزاد کشمیر حکومت میں شامل ایم کیو ایم کے دو وزرا¿ کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ اِس حقیقت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دو عشروں میں الطاف حسین نے بھارتی ایجنسیوں کی مدد سے ایم کیو ایم میں نازی ازم کی طرز پر عسکریت پسند خفیہ ونگ قائم کرکے نہ صرف کراچی کی مہذب اور تعلیم یافتہ اُردو زبان بولنے والی آبادی میں خوف و ہراس کی فضا قائم کی بلکہ رابطہ کمیٹی کے نام پر اپنی مذموم سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کےلئے کراچی کی سرزمین کو خیر باد کہتے ہوئے برطانوی شہریت حاصل کی اور رابطہ کمیٹی کا دائرہ کار نارتھ امریکہ، برطانیہ، یورپ ، سعودی عرب اور خلیج کے ممالک تک بڑھاتے ہوئے ایم کیو ایم کی منفی فکر سے اختلاف کرنے والے کراچی کے رہائشی پاکستانیوں کے عزیزوں کو شدت پسندی کا نشانہ بنانے اور مہاجر ریاست کے قیام کی جد و جہد کے نام پر اپنا ہمنوا بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ حیرت ہے کہ اِس دوران کراچی میں جس کسی نے بھی الطاف حسین کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے کی کوشش کی اُس کا نام و نشان اِس طرح مٹا دیا گیا کہ خوف و ہراس کی اِس فضا میں اُن کے قریبی عزیزوں کےلئے اپنے ہونٹوں کو سی لینے پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
الطاف حسین کی غیر آئینی اور غیر قانونی موشگافیوں اور احمقانہ سیاسی نعرے بازی کو دیکھتے ہوئے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اُنہیں نہ تو تاریخ کی شد بد ہے اور نہ ہی وہ قوم کے موڈ کو سمجھتے ہیں ۔برطانوی شہریت حاصل کرنے کے بعد بھارت کے دورے میں جسے بھارتی ایجنسی نے ٹائمز آف انڈیا کے توسط سے پایہ¿ تکمیل تک پہنچایا تھا، الطاف حسین نے بھارت میں جو لب و لہجہ اپنایا اُسے سن کر تو بانیانِ پاکستان کی روح بھی شرمندہ ہوئی ہوگی۔ اُنہوں نے ببانگ دہل قیام پاکستان کی بنیاد پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ برّصغیر ہندوستان کی تقسیم انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی۔اُنہوں نے بھارتی رہنماﺅں سے یہ احمقانہ مطالبہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا کہ پاکستان میں مہاجروں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اِس لئے بھارت مہاجروں کےلئے اپنی سرحدوں کو کھول دے۔ حقیقت یہی ہے کہ ٹائمز آف انڈیا دراصل پہلے بھارتی سینٹرل انٹیلی جنس بیورو اور پھر ،را، کے قومی مفادات کا علمبردار رہا ہے ۔ تقسیم ہند سے قبل سابق صوبہ سرحد میں مسلمانوں کی 92 فی صد آبادی ہونے کے باوجود ہندو کانگریس کے وزیر خزانہ مہر چند کھنہ خدائی خدمتگار تنظیم کے تعاون سے صوبائی حکومت چلا رہے تھے۔ ریفرنڈم میں شکست کھانے کے بعد کانگریس کی ہدایت پر ہندو سرمایہ داروں نے تقسیم ہند سے قبل اپنا سرمایہ بھارت منتقل کر دیا جبکہ سابق صوبہ سرحد کی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر گردھاری لال پوری تقسیم ہند سے ایک ہفتہ قبل ٹائمز آف انڈیا کے نمائندے کے طور پر کابل منتقل ہوگئے جہاں سے اُنہوں نے ریڈیو کابل کے ذریعے ستمبر 1947 میں پختونستان تحریک کے حق میں آواز بلند کرنی شروع کی جس کا بیک وقت آغاز سرحدی گاندھی عبدالغفار خان نے سابق صوبہ سرحد میں اپنی تقریر سے کیا اور جس کی بھرپور پبلیسٹی ٹائمز آف انڈیا کے ذریعے کی گئی۔ یہی کردار ٹائمز آف انڈیا نے ستمبر 1947میں سابق مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان کے حق میں بھارتی حمایت سے شروع کی جانے والی تحریک کے دوران اد ا کیا ۔چنانچہ یہی کردار تقسیم ہند یعنی قیام پاکستان کے خلاف الطاف حسین نے جولائی 2001 میں بھارت کے دورے میں ٹائمز آف انڈیا کے تعاون سے سرانجام دیا۔
الطاف حسین کے عزائم کیا ہیں ؟ گذشتہ ماہ نجی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سابق انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر شعیب سڈل نے کہا کہ اُنہوں نے متعلقہ معاملے کے شواہد کا ملاحظہ کیا تھا جس کی روشنی میں جناح پور سازش ایک حقیقت ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ایم کیو ایم کے شدت پسندوں کو بھارت میں تربیت دی گئی ہے ۔ پروگرام کے دوران ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن نصرت بھائی نے دعویٰ کیا کہ جناح پور کیس حقیقت نہیں ہے کیونکہ اِس آپریشن کے آفیسر انچارج بریگیڈیئر آصف ہارون نے بھی جناح پور سازش کی تردید کی تھی ۔پروگرام کے جاری رہنے کے دوران راقم نے ٹیلی فون پر بریگیڈیئر ہارون سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے نصرت بھائی کے موقف کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی بات اِس نجی چینل کے بیورو چیف سے ہوئی ہے اور اُنہیں بتایا ہے کہ نصرت صاحب کا موقف انتہائی درجے کا جھوٹ ہے کیونکہ جناح پور سازش ایک حقیقت تھی جس کی بروقت سرکوبی کی گئی ۔ چنانچہ جس طرح جناح پور سازش ایک حقیقت تھی کیا اِسی طرح الطاف حسین کے حالیہ بیانات کا شمار بھی غداری کے زمرے میں نہیں آتا ہے ؟ بھارتی ایجنسیوں کو بزدل قرار دیتے ہوئے کیا الطاف حسین نہیں جانتے ہیں کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ایٹمی صلاحیت کے بدولت پاکستان خطے کی ایک اہم ایٹمی طاقت ہے اور بھارت یونین الطاف حسین کی سیاسی موشگافیوں کی بنیاد پر کسی بھی نوعیت کی ایٹمی جنگ میں اپنی تباہی کا دروازہ کھولنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ غالباً بھارتی ایجنسی سے الطاف حسین کی ناراضگی کا سبب یہی ہے کہ اُنہیں استعمال کرکے ٹشو پیپر کی طرح غیر ضروری سمجھ کر پھینک دیا گیا ہے ۔ بھارتی ایجنسی سے الطاف حسین کی ناراضی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ الطاف حسین کے خلاف برطانیہ میں درج ہونے والے مقدمات کے پیش نظر بھارت اب ایم کیو ایم کے تربیت یافتہ عسکریت پسندوں سے براہ راست روابط استوار کرنے میں مصروف ہے جسکے باعث الطاف حسین کی بلیک میلنگ طاقت کو کراچی میں دھچکا لگا ہے ۔
حیرت ہے کہ قومی امور پر سیاسی مصلحتیں اِس حد تک غالب ہوتی رہی ہیں کہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعد صوبائی و وفاقی امور کو ملک سے باہر رہتے ہوئے طے کیا جا رہا ہے۔ قومی سلامتی امور کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 63(1) (c) کے تحت کوئی بھی پاکستانی اگر کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرتا ہے تو اُسے پاکستان کی پارلیمنٹ کا رکن بننے کےلئے نااہل قرار دیا گیا ہے ۔ یہ اَمر ناقابل فہم ہے کہ دوہری شہریت کے حامل الطاف حسین کو کس بنیاد پر پاکستان پارلیمنٹ کے ممبران کی قیادت کرنے کا حق دیا گیا ہے۔یہ اَمر بھی حیرت انگیز ہے کہ صوبائی حکومتیں ، صوبائی گورنر اور وزرا¿ ، ریاستی اخراجات پر ریاستی سیاسی امور پر بیرون ملک جا کر ہدایات لیتے رہے ہیں ۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سندھ کے صوبائی وزیر اعلیٰ بشمول کیبنٹ ممبران نے بھی دبئی میں اجلاس منعقد کرنے شروع کر دیئے ہیں ۔ اگر سیاسی مصلحتوں کے سبب وفاق اِس مسئلے پر توجہ مرکوز نہیں کر پا رہا تو عدالت عظمیٰ کو اِس غیر قانونی اور شتر بے مہار سیاسی بے راہ روی کا ضرور نوٹس لینا چاہیے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ لندن اور دبئی کے بعد ایسے غیر قانونی ریاستی اجلاس بھارت کے دارلحکومت نئی دہلی میں منعقد ہونے شروع ہو جائیں؟