اسلام آباد (خبرنگار + نوائے وقت رپورٹ + نیوز ایجنسیاں) چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں کچی بستی کے معاملے کی ذمہ دار سی ڈی اے نظر آتی ہے۔ سیاستدانوں کو انکی غلطیوں کی کئی سال بعد سزا ہوسکتی ہے تو باقیوں کو کیوں نہیں۔ انہوں نے کچی آبادی آئی الیون کے مسمار ہونے پر تحریک پر اپنی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں 2 قوانین ہونے کی تقریر کی گئی مگر ایسا نہیں یہاں ایک ہی قانون ہے اور قانون ریاست کیلئے ہوتا ہے، یہاں رہنے والے لوگ ہمیشہ ریاست کے بچے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں سینٹ میں ایف آئی اے سمیت ملکی اداروں میں گذشتہ 5 سالوں کے دوران ہونے والی بھرتیوں میں بلوچستان اور خیبر پی کے کو نظر انداز کئے جانے پر سینیٹرز نے شدید احتجاج کیا ہے اور مطالبہ کیا کہ آئندہ کی بھرتیوں میں زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے، سینٹ میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر طلحہ محمود نے کہاکہ گذشتہ 5 سالوں کے دوران وزارت داخلہ کے ماتحت اداروں ایف آئی اے ،امیگریشن اینڈ پاسپورٹ اور محکمہ انسداد منشیات میں کی جانے والی بھرتیوں میں خیبر پی کے اور بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا ہے ان 5سالوں میں گریڈ 17کا کوئی افسر بلوچستان اور کے پی سے نہیں لیا گیا جبکہ گریڈ16کا ایک آفیسر کے پی سے لیا گیا ہے۔ سینیٹر سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل نے کہاکہ ہم حکومت سے بھیک نہیں مانگتے ہیں بلکہ آئین کے مطابق ہمیں جو حق ملا ہے ہم وہ مانگتے ہیں انہوں نے کہاکہ کب تک چھوٹے صوبوں کو نظرانداز کیا جائے گا۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ صوبوں کو ان کے حقوق نہ ملنے سے احساس محرومی میں اضافہ ہو جاتا ہے سینیٹر کرنل (ر) طاہر مشہدی نے کہاکہ پہلے بلوچستان اور خیبر پی کے کو نظر انداز کیا جاتا تھا مگر اب سندھ کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وزیر انچارج میاں بلیغ الرحمن نے کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ گذشتہ دور میں بھرتیوں میں بلوچستان اور خیبر پی کے کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی مگر موجودہ حکومت ان غلطیوں کا ازالہ کرے گی اور دونوں صوبوں کو ان کا حق دے گی۔ اس وقت ایف آئی اے میں 238اسامیاں خالی ہیں جن پر بھرتیوں کا اشتہار جاری کیا جا چکا ہے اسی طرح امیگریشن اینڈ پاسپورٹ میں گریڈ ایک تا 19کی 535اسامیاں خالی ہیں جن کو پر کرنے کیلئے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔علاوہ ازیں سینٹ کو حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ لواری ٹنل کا منصوبہ 2017ء تک مکمل کرلیا جائے گا، چترال کی عوام کے مسائل سے غافل نہیں ہیں، تحریک پر ارکان سینٹ نے کہا کہ1975ء میں شروع ہونے والے منصوبے کی تاحال مکمل نہ ہونا حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، ٹنل کی اہمیت قومی حامل کی ہے،۔سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ لواری ٹنل کو40 سال بیت گئے مکمل نہیں ہوا۔اس موقع پر سینیٹر جنرل (ر) قیوم نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس پر کام شروع کیا گیا، بدقسمتی سے مارشل لاء میں بند کردیاگیا،اب جبکہ موجودہ حکومت نے2017ء تک ہرحال میں مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ سینیٹر اعظم سوتی نے کہا کہ چترال ہماری معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ کے پی کے حکومت کو بھی سفارش کی ہے کہ چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کیا جائے تاکہ وہاں ڈویلپمنٹ اچھے طریقہ سے ہو سکے۔سینیٹر سیف الرحمان نے کہا کہ لواری ٹنل بھی ایک ایسی حقیقت ہے جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں چیئرمین سینٹ نے آئی الیون کچی آبادی میں آپریشن اور گرفتاریوں کا معاملہ تحقیقات کے لئے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کے سپرد کردیا۔ چیئرمین نے چھ سوالوں کے ساتھ معاملہ کمیٹی کو ریفر کیا، جس میں کہا گیا ہے جب زمین 490لوگوں کو الاٹ ہوچکی تھی اور اس بات کا سی ڈی اے کو علم تھا تو پھر یہاں مہاجرین کو کیوں آباد کیا گیا، کون سے آفیسر اس میں ملوث ہیں، اور اگر انہوںنے ایکشن لیا تھا تو وہ کیا تھا اور اگر نہیں لیا تو اس کی کیا وجوہات تھیں، وہ کیا حالات تھے جن کے تناظر میں سی ڈی اے کو کچی آبادی کومسمار کرنے کی ضرورت پڑی۔ تحریک التوا پر بات کرتے ہوئے ستارہ ایاز نے کہا کہ اسلام آباد میں کچی آبادی کو مسمار کرنا حکومت کا ظالمانہ اقدام تھا، ان لوگوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کرنا شرم کی بات ہے، یہ معاملہ افہام تفہیم سے بھی حل کیا جاسکتا تھا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ان لوگوں کے خلاف درج کیے جانے والے مقدمات خارج کیے جائیں۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جس دن کچی آبادی پر بلڈوزر چلے اس دن حکومت کی کریڈیبلٹی پر بلڈوزر چل گیا تھا۔طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ یہ لوگ چاہے کچی آبادی کے رہائشی تھے تو اس ملک کے شہری اور انسان تھے۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ اس ملک میں اسلامی اصولوں کی پاسداری نہیں کی جاتی۔کلثوم پروین نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد ہم 2ہزار میں کچی آبادی والوں کے پاس گئے اور انہیں متبادل جگہ آفر کی، وہاں اس وقت صرف 3سو گھر تھے، جو آج 8سو ہوگئے ہیں، سی ڈی اے ملازمین کی ملی بھگت سے یہ گھر بنائے گئے جگہ خالی کرانے کا طریقہ کار درست نہیں تھا،حاصل بزنجو نے کہا کہ اسلام آباد عملی طورپر امیروں کا شہر ہے، اگر چک شہزاد میں لوگ سبزیاں نہیں اُگا رہے اور مرغیا ں نہیں پال رہے تو ان کیخلاف کیا ایکشن ہوا کیا کچی آبادی والوں کا قصور ان سے زیادہ تھا۔سی ڈی اے کے ان لوگوں کے ٹرائل کئے جائیں جن کی ملی بھگت سے یہ آبادیاں بنیں۔ وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کہا کہ کچی آبادی پر ایکشن لسانی یا فرقہ کی بنیاد پر نہیں کیا گیا، سب کیلئے ایک قانون ہے۔ جب افغانستان کے حالات خراب ہوئے تو حکومت نے ان لوگوں کو یہاں آباد کردیا۔جب حالات ٹھیک ہوئے تو ان لوگوں کو واپس کردیا۔ بعدازاں سینٹ کا اجلاس آج جمعرات کی سہ پہر 3 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ قبل ازیں سینٹ میں مالیاتی بل (ترمیمی) آرڈیننس 2015ء قومی اسمبلی کیلئے سفارشات مرتب کرنے کیلئے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سپرد کردیا گیا۔