ہمارا قصور یہ ہے کہ یہاں پیدا ہو گئے ہیں

ضلع قصور میں پولیس اور مظاہرین سے تصادم میں کئی پولیس افسران اور ملازمین شدید زخمی ہوئے۔ پولیس کارروائی سے کئی لوگ بھی زخمی ہوئے۔ ایک بندے کی ہلاکت کی خبر بھی آئی ہے۔ قصور کے قریبی گاﺅں حسین والا میں کچھ شرپسند چھوٹے چھوٹے بچوں اور بچیوں کو ورغلا کے لے جاتے ہیں اور مقررہ مقامات پر ان کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ وڈیو بناتے ہیں اور انہیں بلیک میل بھی کرتے ہیں۔ بچے گھروں سے زیورات اور دوسری چیزیں چوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ گھناﺅنا کاروبار بڑے عرصے سے جاری و ساری ہے تو کیا یہ جرم بلکہ ظلم پولیس کی بے خبری میں ہو رہا ہے؟ تھانے والوں کو سب پتہ ہوتا ہے کہ کیا کچھ کہاں کہاں ہو رہا ہے۔ ان کی ملی بھگت شراکت داری اور سرپرستی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔

جب وڈیوز وغیرہ کھلے عام لوگوں تک پہنچیں تو ایک کہرام مچ گیا۔ پولیس کے ساتھ لوگوں نے مسلسل رابطہ کیا مگر ان کی طرف سے سرد مہری اور ظالمانہ بے نیازی کے سوا کچھ نہ ملا۔ وہ ظالموں کے ساتھی ہیں۔
ایسی ایک وڈیو مجھے برادرم مبین غزنوی اور کچھ لوگوں نے فراہم کی میں اسے پورا دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکا۔ کیا یہ فلم متعلقہ پولیس افسران وڈیرے سیاسی شخصیتیں ممبر اسمبلی دیکھنے کی ہمت اپنے بچوں کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ میری دست بستہ گزارش شہباز شریف سے ہے کہ وہ انہیں یہ وڈیو زبردستی دکھائیں۔ میری گزارش ہے کہ آر پی او شہزاد سلطان یہ ”نیک کام“ اپنے خاندان کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ ڈی پی او اور ڈی سی او قصور اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر یہ وڈیو دیکھیں اکیلے میں تو شاید وہ دیکھ چکے ہوں گے؟
جس ملک اور صوبے میں یہ قیامت صغریٰ برپا ہو وہاں رہنے والے سارے کے سارے گنہگار ہیں ہم سب ذمہ دار ہیں؟ سخت گیر اور بہترین منتظم مانے جانے والے شہباز شریف نے علاقے کے دیہاتیوں اور پولیس افسران اور ملازمین کے تصادم کے بعد نوٹس لیا ہے۔ انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ قصور میں کیا ہو رہا ہے۔ جب پولیس والوں کو تکلیف ہوتی ہے تو سب کو پتہ چل جاتا ہے۔ کسی کو کیوں اس طرح کے ظلم و زیادتی کے واقعات کا پتہ نہیں چلتا۔ اور اب پتہ چل ہی گیا ہے تو کیا ہو گا۔ چند دنوں کے شور شرابے کے بعد خاموشی ہو جائے گی۔ لوگ بھول جائیں گے مظلوم بچے اور ان کے گھر والے رو پیٹ کر خاموش ہو جائیں گے اور زندگی ویسے ہی چلتی رہے گی۔ پولیس اپنا رویہ نہیں بدلے گی۔ وہ ظالموں اور مجرموں سیاسی اثر و رسوخ اور پیسے والوں کی ساتھی رہے گی۔ اپنی نگرانی میں جرم اور ظلم کرائے گی۔ کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہو گا۔
مگر اب دو تین ڈی ایس پیز تھانیدار حوالدار اور سپاہی بری طرح زخمی ہوئے ہیں تو اس کے آگے بھی نوبت آ جائے گی یہ بھی خبر آئے گی کہ فلاں تھانے پر حملہ ہو گیا ہے اور کئی پولیس والے اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ اس طرح زندگی شرمندگی کب تک بنی رہے گی۔ زندگی کو درندگی بنانے والے کب تک عیش کریں گے۔ ایسا تو مغربی معاشرے میں بھی نہیں ہوتا جسے ہم بہت برا بھلا کہتے ہیں۔ ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں۔
جنگل میں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ کوئی درندہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو درندگی کا نشانہ نہیں بناتا تو انسان اور بااختیار انسان درندوں سے بدتر ہے۔
اور کچھ نہ ہوا تو یہاں اللہ کا عذاب آئے گا اور عذاب ہر کسی کے لئے ہوتا ہے۔ مصنوعی سیلاب عذاب نہیں ہے۔ مشتعل اور دشمن پانی سے کبھی کسی امیر کبیر وزیر شذیر اور بے ضمیر کے گھر کی چوکھٹ بھی گیلی نہیں ہوتی غریب ہر سال ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ میں تو سی سی پی او لاہور امین وینس اور ایس پی عمر ورک کو جانتا ہوں پچھلے دنوں کچھ پولیس والوںسے خطاب کرنے کے لئے بھی مجھے بلایا گیا تھا۔ اس طرح تھانہ کلچر بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خدا کی قسم جب تک پولیس افسران نہیں بدلیں گے تھانہ کلچر نہیں بدلے گا۔ پولیس افسران کو وزیر اعلیٰ بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔
مظاہرے اور تصادم کے دوران ایم این اے وسیم اختر ملک احمد سعید حاجی نعیم صفدر اور سب اراکین اسمبلی موقع پر پہنچ گئے اور ”انصاف“ کی یقین دہانی کرائی۔ وہ پہلے کہاں تھے۔ انہیں لوگ اسی لئے ووٹ دیتے ہیں کہ ان کے بچے درندگی کا شکار ہوں اور ظالم شکاریوں کی سرپرستی افسران حکمران ممبران اور پولیس کے ظالمان کریں۔ میرے خیال میں قصور کے سب اراکین اسمبلی افسران حکمران اور تھانیداران استعفیٰ دیںیا انہیں نکال باہر کیا جائے۔ مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے اور ان کی لٹکتی ہوئی لاشوں کو وہ بچے پتھر ماریں جن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔
اخبارات میں درندوں کے نام شائع ہوئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ سب انہیں جانتے ہیں۔ یہ بدقماش درندے بااثر لوگ ہیں۔ فہیم عامر، عابد سلیم، اختر شیرازی، عتیق الرحمن، نسیم شہزاد، عثمان خالد، وسیم سندھی، عرفان فریدی، تنزیل الرحمن، علی مجید، فیضان مجید وغیرہ وغیرہ۔ ان سے ایک کو بھی حسین والا اور قصور پولیس نے گرفتار نہیں کیا۔ ان کے لئے ڈی پی او قصور کو بھی پوری طرح علم ہو گا۔ اب یہ سلسلہ حسین والا کے گردونواح میں بھی پھیل چکا ہے۔ پولیس نے سیاسی دباﺅ یا کسی لالچ میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ کیا پولیس والوں کے اپنے بچے نہیں ہیں۔ ان میں سے خدانخواستہ کسی کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی ہوتی تو اب تک حشر بپا ہو جاتا۔ کیا غریب ہونا اس ملک میں ایک جرم ہے بلکہ ظلم ہے۔ اب جرم اور ظلم میں فرق مٹ گیا ہے۔ کیا یہ انسانوں کا معاشرہ ہے؟
میں بڑے ادب سے بہت صلاحیتوں والے اپنے کاموں میں بہت مستعد شہباز شریف سے گزارش کرتا ہوں کہ پنجاب میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو کیوں ہو رہا ہے۔ پولیس ان کی بہت عزیز ہے تو وہ ان کی عزت کے لئے یہ کارکردگی دکھا رہی ہے۔ صرف نوٹس لینا کافی نہیں ہے۔ وہ حسین والا اور قصور جائیں اور عبرتناک کارروائی کی نگرانی خود کریں۔ وہ مظلوموں کے گھر جاتے ہیں انہیں دیکھ کے لوگ خوش ہوتے ہیں مگر جرم اور ظلم بڑھتا جا رہا ہے۔ اب تو یہاں زندہ رہنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ لوگوں کو نہ جینے دیا جاتا ہے نہ مرنے دیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال کب تک چلے گی۔ سردار آصف احمد علی اور خورشید محمود قصوری کا تعلق بھی اس علاقے سے ہے۔ میرے محترم علامہ احمد علی قصوری اور وہ سب لوگ جو قصوری اپنے نام کے ساتھ لکھتے ہیں کچھ کریں کچھ تو کریں۔ یہ توہین انسانیت پر بس نہیں ہے تو کیا اس جرم کی سزا دین میں نہیں ہے؟
آخر قصور والوں کا کیا قصور ہے۔ پولیس بے قصوروں کی دشمن ہے۔ کھلی کچہری اور بند کچہری میں سب سے زیادہ فریاد اور شکایات پولیس کے خلاف ہوتی ہیں۔ ان کی زیادتیاں زبان زدعام ہیں۔ ہمارے قبیلے کی نبیلہ غضنفر پنجاب پولیس کی ڈی پی آر ہیں۔ پولیس کی بہت بڑی وکیل ہیں۔ وہ قصور کے واقعے کے لئے کیا کہتی ہیں۔ آئی جی پنجاب سکھیرا صاحب سے کہیں کہ یہ داغ پولیس کی پیشانی سے ہٹائیں۔ آپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ برادرم مبین غزنوی سے میری گزارش ہے کہ وہ شرمناک وڈیو میرے پاس سے لے جائیں میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی بات سن نہیں سکتا پھر دیکھوں گا تو مر جاﺅں گا۔

ای پیپر دی نیشن