الطاف مجاہد
چیف تیرے جانثار بے شمار، بے شمار کے نعروں میں کراچی، حیدر آباد، سکھر ودوسرے شہروں کے کامیاب دورے کرنے والے چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری اپنی سیاسی جماعت کی تشکیل کے لئے جب وادی مہران کے دورے پر آئیں گے تو انہیں کتنی پذیرائی ملے گی یہ سوال سندھ میں شدت کے ساتھ کیا جا رہا ہے اس لئے بھی کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، فنکشنل لیگ، تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ و سندھی قوم پرستوں سے صوبے کے عوام کچھ نیا چاہتے ہیں لیکن تمام جماعتوں میں موجود فرسودہ چہرے ان کے دکھوں کا مداوا نہیں کر رہے۔ اسی لئے وہ دلی کی ”عام آدمی پارٹی“ کی طرز پر تبدیلی چاہتے ہیں المیہ یہ ہے کہ وڈیرہ شاہی کے ہوتے ہوئے وہ خواب ضرور دیکھ سکتے ہیں انہیں شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے جدوجہد نہیں کر سکتے تبدیلی کے خواہش مند علی قاضی نے بھٹ شاہ میں غالباً ایک لاکھ مندوبین کے اجتماع کے لئے غیر معمولی تگ و دو کی تھی لیکن اس کا دسواں حصہ بھی جمع نہیں ہو سکاتھا حالانکہ ان کی کوشش اخلاص پر مبنی تھی سندھی دانش وروں اور سول سوسائٹی کا بڑا حصہ ان کے ساتھ تھا آج نواز شریف کی پالیسیوں کا بھرپور دفاع کرنے والی ماروی میمن بھی ان کے ہمراہ تھیں اور پرجوش بھی اسی طرح جیسے وہ پرویز مشرف دور میں ہوا کرتی تھیں لیکن صوبے میں تبدیلی کا سورج طلوع نہ ہو سکا اگر بھٹ شاہ اجتماع کامیاب ہو جاتا تو الیکشن 2013ءکے نتائج کچھ اور ہوتے۔
یہ آج کا سندھ ہے 21 ویں صدی کے دوسرے عشرے کا جس میں سندھ کی سیاست کو دوبئی اور لندن سے کنٹرول کیا جا رہا ہے امویوں، عباسیوں، صفاریوں اور بہاریوں کی طرح جن کے عہد خلافت میں سندھ کے معاملات دمشق، بغداد اور دیگر شہروں سے کنٹرول کئے جاتے تھے ممتاز بھٹو کہتے ہیں کہ شر انگیز بیانات دینے والے شخص کیخلاف کارروائی کی جائے وہ الطاف حسین سے گفتگو پر تبصرہ کر رہے تھے انہوں نے کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کو سراہا اور اس کو اندرون سندھ تک توسیع دینے کا مطالبہ کیا اس سے قبل بھی سندھ کے متعدد سیاستدان یہ مطالبہ کر چکے ہیں لیکن سندھ کی حکومت نے رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا ابتدائی نوٹیفکیشن صرف کراچی کے لئے جاری کیا تھا جس پر کافی لے دے ہوئی تھی کراچی آپریشن میں توسیع ہوتی ہے تو سندھ دیہی میں بھی امن و امان کی فضا بحال ہو جائے گی اب تک کراچی میں بیورو کریسی کی گرفتاریوں پر پی پی برہم اندرون صوبہ ایسا ہوا تو اسے بلدیاتی الیکشن جیتنا مشکل ہو جائے گا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لوکل گورنمنٹ انتخابات کے بعد ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی تنظیم نو کی جائے گی یہ اطلاعات ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کا مقصد نوجوانوں کو آگے لانا ہے اسی لئے وہ سردار علی شاہ، فیاض بٹ، مراد علی شاہ کو نمایاں دیکھنے کے متمنی تھے لیکن دبئی اجلاس میں طے پایا کہ فی الحال ”سٹیٹس کو“ برقرار رکھا جائے البتہ محکموں میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے یہ تجربہ بھی ناکام رہا وزیر تعلیم ہزار بجا رانی محکمانہ امور سے دور ہیں گرمیوں کی تعطیلات میں توسیع جیسے اہم معاملے پر سیکرٹری تعلیم فضل اللہ پیجویو اور وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نمایاں رہے۔ بلدیاتی الیکشن ستمبر میں ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ یہ اکتوبر بلکہ نومبر تک جا سکتے ہیں۔ اسی دوران پی پی کی قیادت کے پاس خاصا وقت ہو گا جس میں وہ ہوم ورک کر سکتی ہے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیکرٹری ناہید خان نے پی پی ورکرز پارٹی تشکیل دی ہے اس کے سربراہ ان کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی ہیں لاڑکانہ کا عباسی خاندان پی پی میں بہت نمایاں رہا قومی اسمبلی کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر مسز اشرف عباسی کے دونوں صاجزادگان حاجی منور علی عباسی اور ڈاکٹر صفدر عباسی اب لاڑکانہ کی سیاست سے تقریباً آﺅٹ ہو چکے ہیں بلدیاتی الیکشن میں اطلاعات یہ ہیں کہ وہ ممتاز بھٹو، فنشکنل لیگ، تحریک انصاف اور جمعیت علماءاسلام کے اس اتحاد کا ساتھ دے سکتے ہیں جو پی پی کو اس کے پاور میں لاڑکانہ میں چیلنج کرے گا ایسے ہی اتحاد تھر، ٹھٹھہ، شکارپور، جیکب آباد، دادو، جام شورو، مٹیاری میں بننے جا رہے ہیں پی پی کو سخت مخالفت کا سامنا ہو گا سندھی قوم پرست بھی سامنے آ سکتے ہیں لیکن الیکشن 2013ءمیں کچھ تلخ گھونٹ پینے والی قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کہتے ہیں کہ وہ آئندہ بلدیاتی الیکشن میں کسی سے اتحاد نہیں کرینگے بلکہ تنہا میدان میں اتریں گے حیدر آباد میں پی پی کی کرپشن اور متحدہ کے ضلع ونگ کیخلاف دھرنے کے بعد اگست کے وسط میں کراچی میں بھرپور احتجاج کی مدعی قومی عوامی تحریک کا موقف ہے کہ سندھ میں احتساب کا عمل تیز کیا جائے۔ سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ قادر مگسی کہتے ہیں کہ پی پی اندرونی طور پر متحدہ قومی موومنٹ کی حفاظت کر رہی ہے۔