ایم ریاض
رواںمون سون میںخیبرپختونخوا کے مختلف علاقوںمیں بارشیںرحمت کی بجائے زحمت بن کر برس پڑیںجن میںسب سے زیادہ تباہی صوبہ کے شمالی ضلع چترال میںہوئی ناگہانی بارشوںاورسیلاب کے نتیجہ میں انفراسٹرکچر کو بھی پے پناہ نقصان پہنچا ہے مواصلات خصوصاً مرکزی اور رابطہ سڑکوںکی تباہی میںبمبوریت تاایون روڈ،بریروادی رورڈ، رمبورتا ایون روڈ، دوباش تارمبور روڈ، دوباش تابمبوریت روڈ، ششی کوہ تامدک لشٹ روڈ، گرم چشمہ روڈ، مین چترال بونی روڈ، ریشون پاور ہاﺅس روڈ چترال دروش مغربی روڈ، چترال اورغوچ روڈ، راٹین گول روڈ، تورکہو روڈ، بونی مستوج روڈ کو بری طرح نقصان پہنچا ہے جس کے نتیجہ میںان علاقوںکے مابین زمینی رابطہ کٹ گیا اور یہاںکے مکین اپنے اپنے علاقوں میں عملاً مجبور ہو کر رہ گئے اس کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے پلوںکے علاوہ ایک درجن سے زائد مرکزی رابطہ پل مکمل طور پر تباہ ہو گئے جن میںادسیک ودروش پل، شورغورپل، بروغل روڈکے2پل، ریچ روڈپل، بونی گول پل، اوی پل، کورغ اورکوشروادیوںکو ملانے والا پل اورگولڈے بروزکا مرکزی پل شامل ہےں بہت کم لوگوںکو پتہ ہو گا کہ چترال کے دور افتادہ علاقہ میں مرکزی گرڈ سے بجلی کی ترسیل میں مشکلات کی وجہ سے یہاںکے بیشتر علاقوں میںمقامی طور پر بجلی کی پیداوار ہوتی ہے جس کیلئے یہاںکی قدرتی ندیوں اور نہروں سے استفادہ کیا جاتا ہے ان ندیوں اور نہروں پر جنریشن یونٹ نصب کرکے مفت پیدا ہونے والی یہ بجلی مقامی آبادی کو فراہم کی جاتی ہے چترال ریشون، رمبور، بروز، شالی اور دیگر مقامات پر قائم بجلی گھر یا تو مکمل طور پر سیلابی ریلہ کی نذر ہو گئے یا جزوی طور پر تباہ ہو گئے اور یوں یہاں بجلی کا نظام بھی درہم برہم ہو گیاآسمان سے برس کر اور پگھلتے گلیشیئر سے بہہ کرآنے والے پانی نے چترال کی وسیع آبادی کو پینے کا پانی فراہم کرنے والی واٹر سپلائی سکیمزکو بھی تہس نہس کر ڈالا تباہ ہونے والی آبنوشی سکیموں میںجوہور، چترال گول، بروز، دروش، بمبوریت، ایون، کو غوزی اورگہریت شامل تھیں یوں برستے پانی میں چترال کے باسی پینے کیلئے بوند بوندکو ترسنے لگے سرکاری اعدادوشمارکے مطابق خیبرپختونخوا میں حالیہ بارشوں اور اسی طرح 78 افراد کی اموات واقع ہوئی اور48 افراد زخمی ہوئے جن میںزیادہ تر اموات ضلع چترال میں رونما ہوئی اس طرح ان بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوںسے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں پشاور، ایبٹ آباد، کوہاٹ، کرک، چارسدہ، نوشہرہ، بنوں، شانگلہ، بٹگرام، سوات، دیر بالاں و پایاں، ٹانک، ڈی آئی خان اور بونیر کے اضلاع شامل ہیں سرکاری اعدادوشمارکے مطابق مجموعی طورپر 1724 مکانات کو نقصان پہنچا جبکہ437 سے زائد مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ چترال میں4لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے ہزاروں ایکڑ اراضی پر باغات اورکھڑی فصلیں تباہ ہوئیں اور سینکڑوں مکانات، ہوٹل، سکول اور سرکاری عمارات زمین بوس ہوئیںکئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے تاریخی مقامات کو نقصان پہنچا جولائی2010 میں پاکستان اور خصوصاً خیبرپختونخوا میں قیامت ڈھانے والے سیلابی ریلوںکی تباہی کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ آئندہ ایسی کسی صورتحال میں صوبوںکی سطح پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) جیسے ادارے ایسی بڑی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہوں گے لیکن صوبہ خیبر پختونخوا اورخصوصاً چترال کے متاثرین کو اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب 16جولائی کو رونما ہونے والی تباہی کے بعد فوری طور پرکسی ریلیف آپریشن کا آغاز نہ ہوا صوبائی حکومت کے ذمہ داران بھی اس صورتحال سے لاتعلق نظرآئے جس کا اندازہ اس امرسے لگایا جا سکتا ہے کہ صوبہ کے چیف ایگزیکٹیو وزیراعلی پرویز خٹک 6 روز بعد22 جولائی کو اس روز چترال گئے جب وزیراعظم نوازشریف بھی بیرون ملک دورے سے واپسی پر چترال آئے تھے سول انتظامیہ سے کہیں پہلے پاک فوج حرکت میںآ چکی تھی صوبہ میںتعینات پاک فوج کی 11ویںکور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمان خود اس ریلیف آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے انہوںنے جی او سی ملاکنڈ میجر جنرل نادرخان کے ہمراہ21 جولائی کو چترال جا کر متاثرہ علاقوںکا دورہ کیا اور دوردرازکے دیہات میں متاثرین سے مل کر انہیں یقین دلایا کہ مشکل کی اس گھڑی میں چترال کے عوام تنہا نہیں سڑکوں اور پلوںکی تباہی اور نقصانات کے نتیجہ میں زمینی راستہ سے متاثرہ علاقوں تک رسائی اور یہاں محصور افراد کو نکالنا ناممکن ہو چکا تھا اس صورتحال میں کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمان کی ہدایت پر پاک فوج کے ہیلی کاپٹروںکے پائلٹوں نے موسم کی خرابی کے باوجود مسلسل پروازوں سے کم وبیش ایک ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں محصور افراد کو60 ٹن سے زیادہ غذائی اجناس اور12ہزار لٹر سے زائد پینے کا پانی فراہم کیا سیلابوںکے نتیجہ میں مختلف بیماریوںکا شکار افرادکے علاج معالجہ کیلئے پاک فوج نے چترال سکاﺅٹس کے ہسپتال میں ہنگامی میڈیکل کیمپ قائم کرکے12سو سے زائد افراد کا علاج معالجہ کیا اور یوں اس امرکا عملی ثبوت دیا کہ مشکل کی اس گھڑی میں چترال کے عوام تنہا نہیں 22 جولائی کو وزیراعظم میاں نواز شریف گورنر خیبر پختونخو سردار مہتاب احمد خان اور وفاقی وزیر اطلاعات پرویزرشیدکے ہمراہ چترال پہنچے جہاں انہوں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوںکا دورہ کیا اس موقع پر جی او سی ملاکنڈ میجرجنرل نادر خان نے متاثرین کی امدادکیلئے کئے جانے والے اقدامات کے بارے میں بریفنگ دی چترال کے علاوہ صوبہ کے مختلف مقامات خصوصاً ضلع پشاور، چارسدہ، نوشہرہ اور دیگر اضلاع میں بھی بارشوں اور سیلاب کے نتیجہ میں نقصانات ہوئے تاہم چونکہ چترال میں بارشوں اور سیلاب نے زیادہ تباہی مچائی اس لئے قدرتی طور پر چترال پر ہی زیادہ توجہ مرکوز رہی اور دیگر علاقوں کے نقصانات کی زیادہ تشہیر نہ ہو سکی 2010 کے5 سال بعد حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور اس سے خاطر خواہ اور بروقت نمٹنے میں ناکامی نے متعلقہ سرکاری اداروں اور کارندوںکی کارکردگی جس کے بارے میں زوروشورسے پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے پرسوالیہ نشان لگا دیا ہے۔