الطاف حسین کی آخری تقریر ........آ بیل مجھے مار کے مترادف ہے

سلیم بخاری
کہتے ہیں مسولنیی اور ہٹلر 60 برس کی عمر کو پہنچتے ہی سٹھیا گئے تھے اور پھر جس برق رفتاری سے انہوں نے غلطیاں کیں وہ انہیں تو لے ہی بیٹھیں مگر ان کی حکومتیں اور پارٹیاں جس طرح زمیں برد ہوئیں ویسا ہی کچھ حال ہمارے پیارے الطاف بھیا کا ہے جو سٹھیا تو گئے ہی ہیں مگر جو زہر آج کل ان کی زبان سے نکل رہا ہے وہ انہیں کہاں لے جائے گا اس کا تو شاید خود ان کو بھی احساس نہیں۔ سٹھیانے کے علاوہ وہ خوفزدہ بھی ہیں کیونکہ برطانیہ میں ان کے خلاف چلنے والے دونوں مقدمات اپنی نوعیت کے اعتبار سے سنگین تو ہیں ہیں مگر اب چونکہ شہادتیں میسر آ گئی ہیں اور پاکستان حکومت سکاٹ لینڈ یارڈ اور میٹروپولیٹن پولیس سے بھرپور تعاون بھی کر رہی ہے تو انہیں اپنی گردن کے گرد پھندا تنگ ہونے کا شدید احساس ہے۔ الطاف حسین کیسے منظر عام پر نمودار ہوئے۔ کون انہیں لایا اور کس نے انہیں پروجکیٹ کیا اور مختلف مراحل سے گزر کر وہ کیسے اتنے طاقتور ہو گئے یہ جاننا ضروری ہے سب سے پہلے 1978ءمیں الطاف حسین نے آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی جو بعدازاں 1984ءمیں لفظ مہاجر کو ترک کر کے متحدہ سے تبدیل کر دیا گیا اور اس عمل کے نتیجے میں متحدہ قومی موومنٹ سامنے آئی اور اس نے پہلے کراچی اور بعد میں حیدر آباد اور سکھر کے شہری علاقوں میں پذیرائی حاصل کی اور یہ مقام حاصل کرنے کے لئے کافی مقدار میں گن پاﺅڈر استعمال کیا گیا۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ایم کیو ایم آج سندھ کی دوسری بڑی اور وفاق میں چوتھی بڑی سیاسی قوت بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1980ءسے لیکر 2013ءتک ایم کیو ایم صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں شریک اقتدار رہی ہے۔ اس کا ایک خیراتی شعبہ خدمت خلق فاﺅنڈیشن اور پارلیمانی گروپ حق پرست کے نام سے قائم ہیں۔ 1990ءمیں پارٹی کے اندر موجود چند دھڑوں نے ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کی جن میں سے ایم کیو ایم اس پورے عرصے میں کراچی میں چھائی رہی اور اپنے تمام مخالفین کا قلع قمع کرنے کی کارروائیاں جاری رکھیں۔ ایک تاثر یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی تشکیل فوج کے ادارے آئی ایس آئی کے ہاتھوں ہوئی جس کا بنیادی مقصد پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت ختم کرنا تھی اور کسی حد تک اسے جماعت اسلامی کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا۔ قصہ مختصر 1990ءکی دہائی میں مخالف سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم کے خلاف علیحدگی پسند ہونے کا الزام لگایا جو آخر کار جناح پور کے نقشوں اور ٹارچر سیلوں کی دریافت کی صورت میں قوم کے سامنے آیا۔ یہی وجہ تھی جس کے باعث 1992ءسے 1994ءتک جنرل نصیر اللہ بابر کی قیادت میں پہلا فوجی آپریشن ایم کیو ایم کے خلاف کیا گیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب نصیر اللہ بابر آپریشن کے آغاز پر کراچی پہنچے تو ایم کیو ایم کے دعوی کے مطابق انکا استقبال 12 بوری بند لاشوں سے کیا گیا۔ جواباً جنرل بابر نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کو دھمکی دی کہ وہ جوابی کارروائی کے لئے تیار رہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ اختیار دے دیا کہ انہیں جس پر صرف دہشت گرد ہونے کا شبہ بھی ہو اسے موقع پر ہی گولی ماردی جائے۔ شاید کئی مرتبہ ایسے واقعات ہوئے بھی مگر کراچی میں ایسا امن قائم ہوا کہ چڑیا پرتک نہیں مار سکتی تھی۔ آج بھی یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ 90 کی دہائی میں روشنیوں کے شہر کراچی میں قتل و غارت گری، بوری بند لاشوں، بھتہ خوری اور قبضہ مافیا جیسے لعنتوں کو متعارف کرانے کا ذمہ دار کون ہے۔ فوجیوں کو اغواءکر کے مارنے اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کرنے والے وہ کون لوگ تھے۔ بات کو گھما پھرا کر جس طرف لے جائیں انگلی ایم کیو ایم کی طرف ضرور اٹھتی ہے۔ 1992ءکے اسی آپریشن کے دوران الطاف حسین جان بچا کر لندن بھاگ گئے تھے او رتب سے ہی خود پر طاری جلا وطنی کے نتیجے میں لندن میں بیٹھ کر وہ پارٹی چلا رہے ہیں جن پر کل 72 مقدمات قائم ہیں جن میں 31 قتل اور 11 اقدام قتل مقدمات شامل ہیں۔ اسی طرح ان کے دست راست فاروق ستار پر 23 مقدمات ہیں جن میں پانچ قتل اور چار اقدام قتل کے مقدمات شامل ہیں ان کا نام حکیم سعید کو قتل کرنے والوں میں بھی شامل ہے۔ پرویز مشرف نے بھی 12 قتل اور دیگر مقدمات میں ملوث ایک شخص کو سندھ کا گورنر بنا دیا جن کی گورنری آج بھی قائم و دائم ہے۔ ان سب افراد اور ان کے ہزاروں ساتھیوں کو این آر او کے ذریعے عام معافی دی گئی جو ایک قومی جرم سے کم نہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کالے قانون کو ختم نہیں کر سکی اس این آر او سے دوسرا جو شخص سب سے زیادہ مستفید ہوا وہ سابق صدر آصف علی زرداری ہیں۔ ایم کیو ایم جس کے رہنما مصطفے کمال کو 2008ءمیں بہترین میئر کی فہرست میں شامل کیا گیا مگر اس کا کیا کریں کہ وہ معتوب ہو کر الطاف حسین کے ہاتھوں پارٹی سے نکال دیئے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ 2006ءمیں کینیڈا کی وفاقی عدالت نے ایم کیو ایم کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا اور اس کے رہنماوں اور کارکنوںکو کینیڈا میں داخلے پر پابندی لگا دی ۔ اس پس منظر کے بعد بھارت کے بدنام زمانہ خفیہ ادارے را سے رقم لینا اور اپنی پارٹی کے کارکنوں کی بھارت کے شہر احمد نگر میں تربیت کرا کے کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتیں جیسے الزامات نے پارٹی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ نے جو الزامات لگائے تھے وہ بات اب بہت بڑھ گئی ہے اور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستمبر میں ہونے والے سالانہ اجلاس میں اٹھائے گی۔ اب آئیے الطاف حسین کی حالیہ تقریروں اور بیانوں کی طرف جن میں وہ بقول چودھری نثار تمام حدود پار کر گئے ہیں۔ ذرا ماضی میں جھانکیں تو الطاف بھائی بھارت میں منعقدہ ایک سیمینار میں انتہائی ڈھٹائی سے یہ کہتے ملیں گے کہ برصغیر ہندوستان کی تقسیم انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی تو دوسری طرف وہ اپنے آقاﺅں سے یہ التجا کرتے ملیں گے ”را والو اگر تم ہماری مدد کر دو تو پھر ہم دیکھیں گے کہ دریائے سندھ میں خون مہاجروں کا بہتا ہے یا ظالموں کا“ اور ظالم ان کے نزدیک وہ ہیں جو دہشت گردوں کا صفایا کر کے کراچی کو پھر سے امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں۔ مگر انہیں اتنا خیال ضرور رکھنا ہو گا کہ وہ مادر وطن کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایک محب وطن ہونے کا ثبوت تو دیں۔ الطاف بھائی عجیب انسان ہیں کبھی تو ڈیوڈ کیمرون کو خط لکھ کر آئی ایس آئی کو تباہ کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں تو کبھی پوری مہاجر قوم کو آرمی چیف کے سپاہی بنانے کا اعلان کرتے ہیں۔ کبھی کراچی کے امن کے لئے فوج کو بلاتے ہیں تو کبھی رینجرز کے اہلکاروں کو ظالم اور دہشت گرد کہتے ہیں۔ میڈیا جسے الطاف حسین اور ان کی جماعت نے ایک طویل عرصے تک اپنے گھر کی لونڈی بنائے رکھا اب وہ باتیں کرنے لگا ہے جس سے وہ سب باتیں افشاءہو رہی ہیں جن پر خوف کی وجہ سے کوئی بولنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔ خوف کا یہ عہد ختم ہو رہا ہے کراچی جس میں زندگی کا پہیہ جام کرنے کے دعویدار تھے اب آپ کی خواہش پر ویران نہیں ہوتا۔ ہوش کے ناخن لیں چیزیں برق رفتاری سے آپ کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں۔ آپ کی جماعت اندر سے شدید توڑ پھوڑ کا شکار ہے آپ کے دھڑوں میں وعدہ معافوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ رینجرز نے 147 دہشت گرد فاروق ستار سے مانگ لئے ہیں۔ ایک خط کے ذریعے یہ مطالبہ اس لئے کیا گیا کہ جب ان لوگوں کے خلاف ایکشن ہو گا تو آپ اسے ماورائے عدالت کارروائی نہ قرار دے سکیں۔ جیسا پہلے کہا گیا کہ خوف کا عہد ختم ہو چکا اب کوئی کارروائی چھپ کر نہیں ہو گی بلکہ عوام کو اعتماد میں لیکر ہی کارروائی ہو گی اور اپنے دیرینہ کارکنوں اور مختلف جرائم میں ملوث افراد کا دفاع نہیں کر پائیں گے اور کوئی آپ کی یہ بات نہیں مانے گا کہ ایم کیو ایم کا ان سے کوئی تعلق نہیں یا یہ کہ انہیں پارٹی سے پہلے ہی نکالا جا چکا ہے۔ اب کسی کو بے وقوف بنانے کے لئے ایسا جواز کافی نہیں۔ جہاں تک آپ کی جماعت کے رہنماﺅں اور رابطہ کمیٹی کے ارکان کا تعلق ہے انہوں نے بہت مال بنا لیا ہے اور اب وہ خود بھی راہ فرار اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ آپ کو تو علم ہے کہ بے شمار لوگ پہلے ہی پارٹی چھوڑ اور آپ سے دوری اختیار کر چکے ہیں۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو جو کچھ چودھری نثار نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ایسا نہیں لگتا کہ کراچی میں اب کسی مجرم سے کوئی رعایت ہو گی۔ ایم کیو ایم کے علاوہ بھی جو سیاسی جماعتیں اپنی صفوں میں مجرم اور دہشت گرد چھپائے ہوئے ہیں جلد ان تک بھی قانون کے ہاتھ پہنچ جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...