چودھری نثار نے ہی بھارت کو سمجھا ہے

وزیر داخلہ چودھری نثار سے اسی طرح کے جلال اور جرات کی امید تھی۔ میرے پاس صرف لفظ ہیں۔ میں یہی نذرانہ ان کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ کسی چھوٹے بڑے پاکستانی حکمران نے غیرت قومی کا یہ مظاہرہ نہ کیا ہو گا۔ ہمیں تو ہر حکمران کے لیے تنقیدی انداز ہی رکھنا پڑتا ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ کا رویہ متکرابہ تھا جیسے وہ کسی وائسرائے کا نمائندہ ہو۔ وہ ٹھنڈا ٹھار ہو گیا اور واپس بھارت بھاگ گیا۔ بقول ڈاکٹر شاہد مسعود بھارت اب کشمیر کا نام بھی پاکستان کی طرف سے نہیں سنتا چاہتا۔ میں یہ عرض کروں کہ بھارت کا موقف کشمیر کے لیے ایک جبر مسلسل کی طرح ہے۔ وہ قائم دائم ہیں۔ مگر ہمارے حکمران ڈانواں ڈول ہیں۔ وہ اپنی حیثیت بچانے کے لیے گو مگو کا شکار رہتے ہیں۔ بنگلہ دیش نے اپنے ہی سیاستدانوں کے خلاف موت کی سزائیں دیں۔ صرف اس لیے کہ انہوں نے 45 برس پہلے پاکستان کی حمایت کیوں کی تھی۔ تب بنگلہ دیش پاکستان تھا۔ اب وہ لوگ مکمل طور پر بنگلہ دیشی ہیں مگر بھارت کے ظالم حکمران مودی کی خوشنودی کے لیے ظلم کیا۔ مودی نے بنگلہ دیش بنوانے کا کریڈٹ بڑے فخر سے قبول کیا۔
مشرقی پاکستان تو ایک غیرمتنازع علاقہ تھا۔ کشمیر متنازع ہے۔ مگر بھارتی حکمران چاہتے ہیں کہ پاکستان اسے متنازعہ نہ کہے۔ ہم بہت خوش ہیں کہ پہلی بار وزیر خارجہ نے راج ناتھ کو دوٹوک بلکہ منہ توڑ جواب دیا ہے۔ وہ اتنا کنفیوز ہوا کہ گھر بھاگ گیا۔ ورنہ وہ بہت غرور سے پاکستان پہنچا تھا جیسے یہ اس کی باجگزار ریاست ہو۔ چودھری نثار نے پاکستان کو ایک خود مختار ریاست بنا دیا ہے۔
چودھری صاحب نے کہا کہ ریاستی دہشت گردی تو بڑی دہشت گردی ہے۔ کشمیر میں یہی کام بھارت کر رہا ہے تو دہشت گرد وزیر خارجہ برداشت نہ کر سکا۔ چودھری نثار نے کوئی بدتمیزی نہیں کی۔ گھر آئے مہمان کو ڈانٹا نہیں صرف کلمہ حق کہا کہ جہاد سے اس جہد مسلسل کو جاری رکھا جائے۔ میں مجاہد وزیر داخلہ کو سلام کرتا ہوں۔ کوئی تو وزیر ہے جس کی تعریف کی جا سکتی ہے۔ میں تو یہ خواہش رکھتا ہوں کہ اب نواز شریف بھی ایسا ہی جرات مندانہ موقف اختیار کریں۔ وہ جب پہلی بار وزیراعظم بنے تھے تو کسی نے کہا تھا کہ اب مسئلہ کشمیر کشمیری وزیراعظم کے دور میں حل ہو گا۔
نواز شریف وزارت خارجہ کا قلمدان بھی اب چودھری نثار کو دے دیں۔ وہ بیمار ہیں۔ اتنا بوجھ ان کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اللہ یونہی انہیں صحت مند اور ثابت قدم رکھے۔ جو زبردست موقف چودھری صاحب نے اختیار کیا ہے یہ نواز شریف سے ڈسکشن کے بعد ہی سامنے آیا ہو گا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ مسلمانوں کے دشمن اور قاتل وزیراعظم مودی کے زمانے میں ہی مسئلہ کشمیر حل ہو گا۔ یہ اگر نواز شریف اور چودھری نثار کے زمانے میں حل ہو تو بہت زیادہ خوشی ہو گی۔
نواز شریف پر بھارت میں ایک مقدمہ قائم ہوا ہے۔ ذاتی دوستی کے حوالے سے یہ بات شرمناک ہے۔ یہ بہت گھٹیا بات ہے۔ اب وہ چودھری نثار کے خلاف مقدمہ کریں گے۔ چودھری صاحب کے خلاف بھارت میں مظاہرے بھی ہوں گے۔ اس پر بھی ہم خوش ہوں گے۔
بھارت میں جس پاکستانی کے خلاف کچھ ہوتا ہے تو یہ اس کی کریڈیبلٹی ہوتی ہے۔ یہ چودھری نثار کے حوالے سے نواز شریف کی کریڈیبلٹی بھی ہے۔ پروفیسر حافظ سعید نے بھی چودھری نثار کی تعریف کی ہے۔ پروفیسر سعید سے بھارت خوف زدہ رہتا ہے۔ اب چودھری صاحب سے بھی گھبرایا کرے گا۔
میں میانوالی کا پٹھان ہوں۔ پینڈو آدمی ہوں۔ وہاں کوئی کسی کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ کوئی بھی اپنی توہین برداشت نہیں کر سکتا۔ قوموں اور ملکوں کا بھی یہی سیاسی اور خارجہ کلچر ہونا چاہیے۔ پاکستان طاقتور ہو گا تو کوئی بھی خاص طور پر بھارت کبھی جرات نہیں کرے گا کہ پاکستان کے لیے حقارت سے بات کرے۔ راج ناتھ میں جرات ہوتی تو محفل میں بیٹھا رہتا اور بات کرتا۔ بھارت والوں کے پاس کوئی بات تو ہے نہیں۔ وہ ظلم کرنے کو دھرم سمجھتے ہیں۔ ہٹ دھرمی ان کا دھرم ہے۔ ظلم ہمیشہ کمزور پر کیا جاتا ہے۔ کشمیری کمزور نہیں ہیں۔ اب تک ظلم کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور ہم پاکستانی مصلحتوں کا شکار ہیں۔ تجارت ہمیشہ اعتماد والے کے ساتھ ہو سکتی ہے اور بھارت والے قابل اعتبار نہیں ہیں۔
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کو خسارا
دین کا لفظ جامع ہے اور مذہب سے مختلف معنویت کی کائنات اپنے اندر رکھتا ہے۔ ہمارے مولویوں کو ان لفظوں کے دل میں اتر کر دیکھنا چاہیے۔ اچھی زندگی دوسروں کے لیے مددگار زندگی ہی دین ہے اور اسے دین فطرت کہا گیا ہے۔ فطرت سے دور رہ کر ہم ذلت اور اذیت کے سوا کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔
بھارت کے ساتھ ایک بار تمام روابط ختم کرنا چاہئیں۔ بھارت کو دنیا بھر میں تنہا کر دینا چاہیے۔ بنگلہ دیش کے لیے بھی چودھری نثار نے جرات مندانہ بیانات دیے تھے ورنہ پاکستانی حکومت نے اسے بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ قرار دے کے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔
چین چاہے تو دو گھنٹے میں تائیوان کو فتح کر لے مگر ایک دن خود تائیوان چین کی جھولی میں جا گرے گا۔ فتح مکہ کی مثال بغیر لڑے ہوئے معرکہ آرائی کے لیے بے مثال ہے۔ کشمیر بھی آزاد ہو گا اور پاکستان کا حصہ بنے گا مگر پہلے پاکستان خود تو پوری طرح آزاد ہو لے۔
چودھری صاحب نے مل بیٹھ کے مذاکرات کی بات کی ہے۔ بمبئی حملہ اور پٹھانکوٹ کا واقعہ دہشت گردی ہے تو آرمی پبلک سکول پشاور اور گلشن اقبال پارک لاہور میں قتل و غارت کیا ہے؟ ہم نے کبھی بھارت کا نام نہیں لیا۔ مگر بھارت میں کسی چھوٹے سے چھوٹے واقعے کے لیے بغیر تحقیقات کے پاکستان کا نام لگا دیا جاتا ہے۔
ایک دفعہ بھارت سے مکمل بائیکاٹ کرنا ہو گا اور موجودہ حکومت میں صرف چودھری نثار کو حق حاصل ہو کہ وہ بھارت کے حوالے سے بات کریں۔ عالم اسلام کو بھی بھارت کی طرف ترجیح سے روکنا چاہیے۔ امریکہ کو بھی کوئی سخت پیغام دینا چاہیے۔ چین اور روس کی طرف پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چودھری نثار نے اپنی زمین کو واقعی سرزمین بنا دیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن