عمران خان… مشتری ہوشیار باش!

Aug 06, 2018

پاکستان تحریک انصاف نے وفاق میں اپنی حکومت بنانے کیلئے عددی اکثریت حاصل کرلی ہے اور عمران خان کے وزیراعظم بننے میں اب کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ مسلم لیگ (ق)، آزاد اُمیدوار، بلوچستان عوامی پارٹی اور متحدہ قومی موئومنٹ کے اتحاد کے بعد پی ٹی آئی کو سادہ اکثریت حاصل ہوگئی ہے، اور اُمید ہے کہ وہ 14 اگست سے قبل وزیراعظم کا حلف اُٹھالیں گے۔ دوسری جانب سے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے اور قوم پرست جماعتوں پر مشتمل گرینڈ اپوزیشن نے بھی صف بندی کرلی ہے اور پالیمان کے اندر اور باہر شدید احتجاج کی دھمکی بھی دے دی ہے۔ عمران خان نے اپنی 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد بالآخر اپنی منزل کو پا ہی لیا اور وزیراعظم کا اعلیٰ ترین منصب اُن سے بس کچھ ہی دن دور ہے۔ عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد میں کئی نشیب و فراز کا سامنا کیا اور اُن کا مقابلہ بھی بڑی دیدہ دلیری سے کیا، مگر اَب جو اُن کے سامنے مشکلات پیش آنے والی ہیں وہ اِن نشیب و فراز سے کہیں زیادہ بڑی ہیں۔ عمران خان کیلئے وزارتِ عظمیٰ پھولوں کی نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ثابت ہوگی۔ گرینڈ اپوزیشن نے بھرپور احتجاج کا اعلان کرکے اپنے عزائم کو ظاہر کردیا ہے۔ وزیراعظم
، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کا اُمیدوار لانے کا بھی اعلان ہوچکا ہے۔ اب وہ پالیمان میں اپنا اُمیدوار کامیاب کراپاتے ہیں یا نہیں یہ بات الگ ہے مگر انہوں نے جمہوری عمل میں حصہ لینے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ بہت خوش آئند ہے، جس کی بازگشت عرصے تک سنائی دے گی۔ اپوزیشن کے اجلاسوں میں تمام پارٹی کے سربراہ موجود رہے مگر ایک بڑی شخصیت منظرعام سے غائب رہی، وہ ہیں آصف علی زرداری۔ اُن سے کچھ بعید نہیں کہ وہ کب بازی اپنے حق میں پلٹ دیں، وہ مخالف کو چاروں شانے چت کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ صدر مملکت کے عہدے پر رہتے ہوئے اُن کی صلاحیتوں کا اظہار بخوبی دیکھنے میں آیا مگر پچھلے دورِ حکومت میں بلوچستان میں اِن ہائوس تبدیلی اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے اُن کے دائو پیچ سے لوگ آج بھی ششدر ہیں۔ عمران خان کیلئے آصف علی زرداری ترنوالہ ثابت نہیں ہوں گے۔ سیاست میں کچھ بعید نہیں ہے۔ کل کی حریف جماعتیں آج حلیف جماعتیں بن جاتی ہیں۔ جیسا کہ انتخابات 2018ء کے بعد بھی ہوا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی الیکشن کے قبل ایک دوسرے پر لعن طعن کرتی رہیں اور اب مفادات کے حصول کیلئے اِکٹھے ہوگئے ہیں۔ اِسی طرح تحریک انصاف جن آزاد اُمیدواروں اور متحدہ قومی موئومنٹ پر تنقید کرکے الیکشن میں کامیاب ہوئی، آج اُنہی کو نمبر گیم پورا کرنے کیلئے اپنے ساتھ اتحادی بنایا جارہا ہے۔ متحدہ قومی موئومنٹ بھی چاہتی ہے کہ وہ حکومت میں شامل ہوجائے کیونکہ اُنہیں پتہ ہے کہ اپوزیشن میں جانے سے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا، حکومتی بنچوں میں بیٹھنے سے مفادات کی تکمیل کی اُمید ضرور قائم ہے۔ مجھے یاد ہے جب عمران خان 2013ء میں خیبرپختونخواہ میں جماعت اسلامی سے اتحاد کرکے حکومت بنارہے تھے تو یہ چہ میگوئیاں ہورہی تھیں کہ عمران خان کو دہشت گردی کا ڈَسا ہوا صوبہ دے کر تحریک انصاف کو دفن کیا جارہا ہے۔ اُس وقت بھی مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) چاہتی تو کے پی کے میں حکومت بناسکتی تھیں مگر دہشت زدہ صوبے میں حکومت کرنے سے اُنہوں نے احتراز برتا اور قرعہ تحریک انصاف کے نام کھل گیا۔ جس کا انہیں احساس اب ہورہا ہوگا کہ یہ اُن کی بہت بڑی غلطی تھی۔ پختونخواہ کے عوام نے حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت سے کامیاب کرواکر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے بلکہ ایک نئی تاریخ بھی رقم کردی ہے۔ اب جبکہ تحریک انصاف مرکز، کے پی کے اور پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کی مضبوط پوزیشن میں آچکی ہے، اس وقت بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جس نہج پر اس وقت پاکستان ہے، اس میں عمران خان ملک کی باگ ڈور سنبھال نہیں پائیں گے اور وہ اپنے وعدوں کی تکمیل نہیں کرسکتے۔ اس بارے میں کہنا ابھی تو قبل از وقت ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ عمران خان کے اندر جو جنون ہے وہ اُسے اپنے وعدوں کی تکمیل تک چین سے بیٹھنے نہیں دے گا۔ گرینڈ
اپوزیشن نے اجلاس میں عمران خان کے خلاف صف بندی کرتے ہوئے شہباز شریف کو وزیراعظم کے الیکشن میں ناکامی پر قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف بنانے پر اتفاق کرلیا ہے۔ جبکہ سینیٹ میں ’’اِن ہائوس‘‘ تبدیلی بھی اُن کے عزائم میں شامل ہے۔ تحریک انصاف کو سینیٹ میں اکثریت حاصل نہ ہونے کے باعث ٹف ٹائم دینے کیلئے بھی لائحہ عمل مرتب کیا جاچکا ہے۔ پارلیمان کے اندر اور باہر دونوں جگہ بھرپور احتجاج کیلئے ٹی او آر بھی بنائے جارہے ہیں۔ گرینڈ اپوزیشن الائنس میں موجود تمام سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں مگر اُن کا اتحاد کب تک برقرار رہتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق یہ صرف چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے کی کوشش ہے جبکہ یہ اتحاد بھی ماضی کی طرح دیرپا ثابت نہیں ہوگا۔ متوقع وزیراعظم عمران خان کے سامنے انتہائی مشکل حالات ہوں گے، معیشت، عدلیہ، زراعت، صنعت، بیوروکریسی، پولیس سمیت تمام شعبوں میں جنگی بنیادوں پر اصلاحات کی اشد ضرورت ہے اور ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ’’پانی‘‘ سے نمٹنا بھی نئی حکومت کے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ جس کا عمران خان اور تحریک انصاف کو بھرپور ادراک ہے۔ اگر عمران خان کی جانب سے دئیے گئے 100 دن کے پلان پر عملدرآمد ہوجاتا ہے تو اُن کیلئے مشکلات بہت حد تک کم ہوجائیں گی اور پانچ سال تک وہ اپنی حکومت کو مستحکم رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ مگر یہ سب نئی حکومت کیلئے لوہے کے چنے چبانے سے بھی زیادہ مشکل ہوگا۔

مزیدخبریں