کارروائی بلاامتیاز ہونی چاہئے، ترجیحاً سوئس اکاﺅنٹس سے دو سو ارب ڈالر واپس لانے کی کوشش کی جائے

Aug 06, 2018

بیرون ملک بڑی جائیدادوںوالے7سو پاکستانیوں کو ایف بی آر کے نوٹس، دس کھرب کی دبئی لیکس آنے کا امکان
نیب کی جانب سے دبئی لیکس جاری ہونے کا امکان ہے جس میں پاکستانیوں کی دبئی میں موجود 10 کھرب روپے سے زائد مالیت کی جائیدادوں کا انکشاف کیا جائے گا۔ انسداِد بدعنوانی کے ادارے کی شکایت موصول ہونے پر نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں پاکستانیوں کی دبئی میں موجود جائیدادیں افشا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔درخواست گزار کے مطابق 7 ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی متحدہ عرب امارات میں 10 کھرب روپے سے زیادہ مالیت کی جائیدادیں ہیںجن میں سابق اعلیٰ فوجی افسر، سیاستدان، سرکاری عہدیدار، میڈیا ہاﺅسز کے مالکان اور صحافی شامل ہیں۔ اس حوالے سے میڈیا میں گردش کرتی اطلاعات کے مطابق ’دبئی لیکس‘ نامی فہرست متحدہ عرب امارات کے حکام نے 2015 میں پاکستان کو فراہم کی تھی تاہم سابق حکومت نے ملکی دولت واپس لانے اور آف شور اثاثوں کے مالکان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کےلئے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ اس حوالے سے نیب ذرائع نے بتایا کہ ادارہ دبئی میں موجود پاکستانیوں کی جائیدادوں سے متعلق مزید تفصیلات حاصل کرنے کےلئے دفتر خارجہ سے مدد لے گا۔نیب باہمی قانونی تعاون کے معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات کے حکام سے بھی خلیجی ممالک میں پاکستانیوں کی جائیداوں کی معلومات حاصل کرنے میں مدد لے سکتا ہے۔دوسری جانب ایمنسٹی سکیم کی مدت پوری ہونے پر ایف بی آر ایکشن میں آ گیا۔ پہلے مرحلہ میں دبئی اور برطانیہ میں جائیدادیں رکھنے والے افراد کو نوٹسز بھجوا دیئے گئے۔ او ای سی ڈی معاہدہ کے تحت ایف بی آر کو ملنے والی معلومات کے مطابق تقریباً700 ایسے افراد کی نشاندہی ہوئی ہے جنہوں نے ایمنٹسی سکیم میں اپنی جائیدادیں ظاہر نہیں کیں لیکن وہ ان جائیدادوں کے مالک ہیں اور ان کو کرایہ یا دوسری آمدن ہو رہی ہے۔ ایف بی آر نے برطانیہ میں جائیداد رکھنے والے 250 اور دبئی میں جائیداد کے مالک 450 پاکستانی شہریوں کو نوٹس بھجوائے ہیں۔ نوٹسز ایف بی آر کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ونگ کی جانب سے بھجوائے گئے ہیں جس میں برطانیہ اور دبئی میں خریدی گئی جائیدادوں کے لیے سرمائے کا ذریعہ پوچھا گیا ہے۔
پاکستانیوں کے بیرون ممالک اربوں ڈالرز کے کاروبار، جائیدادیں اور بینک اکاﺅنٹس ہیں۔ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے پاکستانیوں نے بیرون ممالک جائیدادیں بنائیں، بزنس کئے اور اکاﺅنٹس کھلوائے تو اس میں کوئی حرج اور قدغن نہیں ہے۔ مگر بعض لوگوں نے قومی وسائل لوٹ کر یا ٹیکس بچانے کیلئے بڑی بڑی رقمیں بیرون ملک منتقل کر دیں جس سے ملکی معیشت انحطاط پذیر ہوئی۔ ایسے اقدامات کی حوصلہ شکنی اور منتقل کی گئی دولت واپس وطن عزیز میں لانے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بیرون ملک کے ساتھ اندرون ملک پاکستانیوں کو بھی کالے دھن کو سفید کرنے کا موقع دیتے ہوئے ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی۔
5 اپریل 2018 کو اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے 5 نکاتی ٹیکس اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن لوگوں کے اثاثے بیرون ملک ہیں وہ دو فیصد جرمانہ اد اکر کے ٹیکس ایمنسٹی سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔وزارت خزانہ کے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے اعداد و شمارکے مطابق ا یمنسٹی سکیم سے ساٹھ ہزارکے قریب افراد نے فائدہ اٹھایا ۔ بیرون ملک ظاہر کیے گئے اثاثوں کی مالیت 577 ارب روپے جب کہ اندرون ملک ظاہر کیے گئے اثاثوں کی مالیت 1192 ارب روپے رہی۔ایمنسٹی سکیم کی مد میں مجموعی طور97 ارب روپے ٹیکس وصول ہوا جس میں سے 36 ارب روپے بیرون ملک اثاثوں اور اندرون ملک اثاثوں سے 61 ارب روپے وصول ہوئے۔ 4 کروڑ ڈالر کے اثاثہ جات پاکستان منتقل کیے گئے ۔ پاکستان کی تاریخ میں اب تک کسی ایمنسٹی سکیم پر اتناٹیکس وصول نہیں ہوا۔
جب ملک میں ٹیکس ایمنسٹی سکیم چل رہی تھی تو عام انتخابات کا عمل بھی جاری تھا اور اب اقتدار ایک جماعت سے دوسری جماعت کو منتقل ہو رہا ہے۔ سرمایہ دارپریشان تھے کہ اگرایمنسٹی کے چکر میں اپنے چھپائے ہوئے اثاثے ظاہر کر دیئے تو ہوسکتا ہے کہ ان کیخلاف کارروائی شروع کردی جائے۔ شش و پنج میں الجھے سرمایہ داروں نے کارروائی کے خدشات پر اثاثے ظاہرکرنے سے گریز کیا۔بلاشبہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کا نظام بہت مضبوط ہے اور کوئی بھی شہری اب اپنے اثاثے نہیں چھپا سکتا۔بیرون ملک اثاثوں کیلئے او ای سی ڈی کا قانون ہے ، جن پاکستانیوں نے اوورسیز اثاثوں کو چھپایا ہے وہ بھی قانونی کارروائی سے بچ نہیں سکتے۔ یہ سب اپنی جگہ درست ہے مگر کالے دھن کو 2فیصد تک کی ادائیگی کے بعد سفید دھن میں بدلنے والوں کو اسی سکیم میں قانونی تحفظ دیا گیا ہے جو دولت2فیصد ٹیکس کی ادائیگی کے بعد سامنے آئے گی اس پر کسی قسم کی پوچھ گچھ ہو سکتی ہے اور نہ ہی مزید ٹیکس لاگو ہو سکتا ہے۔ اس دولت کے ذرائع بھی ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں۔ تحریک انصاف کی متوقع حکومت ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں مزید توسیع کرکے ان لوگوں کیلئے حوصلہ افزائی کا باعث بن سکتی ہے جو اس کے خوف سے اپنے اثاثے ظاہر کرنے میں شش و پنج میں مبتلا رہے۔نئی حکومت کو فوری طور پر 12ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی مدت میں توسیع سے 12ارب ڈالر میں سکیم سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور پڑ سکتا ہے۔
ایمنسٹی سکیم کے تحت کالے دھن کو سفید میں بدلنے کیلئے کسی بھی سرمایہ کار کو ریاستی قانون پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے اثاثے ظاہر کر دینے چاہئیں تھے ایسا نہ کرنے والوں کیخلاف اب قانون حرکت میں آ رہا ہے۔ ایف بی آر نے250برطانیہ اور 450دبئی میں موجود پاکستانی کاروباری شخصیات کو نوٹس بھجوا دیئے ہیں۔ ان لوگوں سے متعلقہ ممالک میں خریدی گئی جائیدادوں کیلئے سرمائے کے ذرائع پوچھے گئے ہیں۔ مبینہ طور پر ان لوگوں کو ایسے سوالات کا سامنا ہے جس طرح سابق وزیراعظم میاںنوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کوتھا عدالت کے مطابق تسلی بخش جواب نہ دینے پر قید اور جرمانے کے علاوہ ایون فیلڈ فلیٹس بحق سرکار ضبط کرنے کا فیصلہ بھی صادر کیا گیا۔اس فیصلے کو مسلم لیگ ن اور اس کے حامی حلقے تعصب پر مبنی قرار دیتے ہیں تاہم ایک عوامی حلقہ بھی اسے متنازعہ سمجھتا ہے۔ پاناما اور اس کے بعد منظر پر آنے والی بہاماز لیکس میں چھ سو کے قریب لوگوں کے نام تھے۔ ان میں سے صرف حکومتی خاندان کیخلاف کیس چلا جبکہ باقی لوگوں کے خلاف اتنی سرعت سے کارروائی نہیں ہوئی۔ شریف خاندان کے ساتھ پاناما لیکس اوربہاماز لیکس میں شامل افراد کا بھی احتساب کیا جاتا تو نہ صرف اربوں ڈالر قومی خزانے میں واپس آنے کی امید پیدا ہوتی بلکہ میاں نوازشریف اور مریم نواز کیخلاف فیصلوں کو انتقامی کارروائی، متعصبانہ اور متنازعہ قرار دینے کا جواز نہ ہوتا۔ اب ایف بی آر نے جن 700افراد کو نوٹس بھیجے ہیں ان کے خلاف بغیر کسی امتیاز کے کارروائی کی ضرورت ہے۔ ”پک اینڈ چوز“ کا فارمولا لاگو کیا گیا تو ایف بی آر کی کارروائی بھی متنازعہ ہو سکتی ہے۔
نیب کی جانب سے دس کھرب روپے کی دبئی لیکس سامنے لانے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ دس کھرب روپے بہت بڑی رقم ہے۔ سات ہزار پاکستانیوں کی دبئی میں دس ارب کی جائیدادیں ہیں۔ اگر یہ ناجائز ذرائع سے بنائی گئی ہیں تو نیب کارروائی میں بحق بجانب ہے۔ یہاں بھی غیر جانبداری سے کارروائی کی ضرورت ہے۔
آج ہماری معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، غربت، فلاس اور ننگ اکثریتی آبادی کا مقدر بن چکی ہے۔ بڑے شہروں میں بھی پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ پاکستانی قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ اس سب کے ذمہ دار رحم اور معافی کے مستحق نہیں۔ دس کھرب روپیہ ایک بڑی رقم ہے جو پاکستان آئی تو مناسب مدات پر صرف ہو سکتی ہے مگر پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں۔ یہ ایک خطیر رقم ہے۔ نئی حکومت کو بارہ ارب ڈالر کی فوری ضرورت ہے۔ پاکستان کے سر قرضوں کی مالیت نوے ارب ڈالر ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سوئس حکام کیساتھ مذاکرات کے ذریعے دو سو ارب ڈالر پاکستان لانے کیلئے مذاکرات کئے جن میں کامیابی ہوئی مگر بوجوہ 2سو ارب ڈالر پاکستان نہ آ سکے۔ سوئس اور پاکستانی حکام کے مابین معاہدہ اب بھی موجود ہے اس پر عمل کرکے یہ خطیر رقم جلد پاکستان کو واپس مل سکتی ہے۔ متوقع نئی حکومت کیلئے یہ رقم نعمت غیرمترقبہ ہو گی ۔ اس طرف پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں