گڈ گورننس: نئی حکومتوں کی صحت اور تعلیم؟

گڈ گورننس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ، جو کام دس بندوں کا ہو ، وہ اگر نہ کریں تو اس کام پر مزید چار پانچ لوگ متعین کردیئے جائیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ، جو 10 لوگ تساہل پسند یا نااہل ہیں، انہیں گھر بھجوا کر بہتر متبادل تلاش کیا جائے! ۔سابق ن لیگ حکومت کے کئی کمال آئیڈیاز اور سودمند پروگراموں کا بیڑا غرق کرنے میں کچھ کرپٹ بیوروکریٹس ، چند ناعاقبت اندیش ٹیکنوکریٹس اور کئی نااہل وزراءکا ہاتھ ہے۔ کچھ اچھے کاموں کا سہرہ بھی بہرحال ن لیگ کے سر ہے، جو پنجاب میں تمام تر مخالفتوں کے باوجود انہیں قابل غور پذیرائی ملی۔ یہ سچ ہے کہ پاناما کا شاخسانہ کسی ن لیگ مخالف کا نہیں ہے، لیکن یہ بھی ایک صداقت عامہ ہے کہ اس کلنک کے ٹیکے کے باوجود لوگوں نے کئی ترقیاتی منصوبوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے ن لیگ پر ووٹ نچھاور کئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ، تحریک انصاف آئندہ کن کن کاموں سے عوام کو اپنا گرویدہ کرتی ہے۔ 1985 سے 2018 تک، ن لیگ نے 2008 تا 2013 پھر 2013 تا 2018 پنجاب میں نسبتا ریکارڈ ڈلیور کیا، 2013 تا 2018 کی مرکزی حکومت بھی متذکرہ تاریخ میں بہتر رہی۔ جیسے بھی ہوا، ن لیگ نے لوڈشیڈنگ سے کافی حد تک نجات دلائی۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ لوڈشیڈنگ کے حوالے سے اگلی حکومت کس قدر کامیابیاں سمیٹتی ہے؟ واضح رہے کہ 2002 تا 2008 تک ق لیگ اور 2008 تا 2013 پیپلزپارٹی نے کوئی ایسے ٹرینڈ سیٹ نہیں کئے تھے کہ، ن لیگ کے لئے کوئی چیلنج ہوتا، تاہم ن لیگ نے باوجود پاناما داغ تحریک انصاف کے لئے ترقیاتی چیلنجز ضرور چھوڑے ہیں۔ مثلا شہباز شریف اس پوزیشن میں تھے کہ، کراچی اور پشاور میں کھڑے ہو کر کہہ سکیں، کراچی اور پشاور کو لاہور بنا دوں گا۔ مگر مراد علی شاہ یا پرویز خٹک اس پوزیشن میں نہ تھے کہ، لاہور میں کھڑے ہوکر یہ کہہ سکتے کہ، لاہور کو کراچی یا پشاور بنا دیں گے۔ ایسی کئی باتیں اور ہیں جو اگلی حکومت کو مدنظر رکھتے ہوئے معیار کا مقابلہ کرنا ہوگا۔۔۔۔ مگر آنے والی حکومت اگر صحت اور تعلیم پر تھوڑی سی بھی توجہ دے پائی تو سابق حکومت کو پیچھے چھوڑنا مشکل کام نہیں۔ بدقسمتی سے ن لیگ نے مرکز میں محض کمپنی کی مشہوری کے لئے دو وزرائے مملکت کو قلمدان سونپے رکھے۔ 18ویں ترمیم کے بعد مرکز کو ان دو وزارتوں کی قطعی ضرورت نہ تھی، کسی بھی وزیر کو ایڈیشنل چارج دے کر کام چلایا جاسکتا تھا مگر بلیغ الرحمان (تعلیم) اور سائرہ افضل تارڑ (صحت) کو خواہ مخواہ "سینٹ" بنائے رکھا۔ اور تو اور ، جاتے جاتے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ان دونوں کو سٹیٹ منسٹری سے ترقی دے کر فیڈرل منسٹری سونپ دی جس کی ہرگز ضرورت نہیں تھی، اور نہ یہ دونوں اس قابل ہی تھے۔ بلیغ الرحمان اور سائرہ افضل تارڑ کے ساتھ آخر الیکشن نے ایسے ہی"انصاف" کردکھایا جیسے انہوں نے اپنی وزارتوں یا اچانک پارٹیاں بدلنے والے ندیم افضل چن، فردوس عاشق اعوان، نذر محمد گوندل، رانا نذیر اور میاں طارق محمود جیسوں سے ہوا۔میاں شہباز اچھا چاہتے تھے لیکن ہائر ایجوکیشن سے زیادتی بذریعہ سید بابر علی، ڈاکٹر ظفر اقبال قریشی المعروف ZIQ , ڈاکٹر نظام الدین جیسے ٹیکنو کریٹس سے سرزد ہوئی۔ اور رہی سہی کسر ارم بخاری، محمد عرفان اور نبیل اعوان جیسے بیوروکریٹس نے نکال دی۔ ایسے ہی بگاڑ میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنے والوں میں سابق صوبائی وزرائ رانا مشہود اور رضا علی گیلانی کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سندھ میں نثار کھوڑو نے جو بطور وزیر تعلیم کیا انہیں تو بہرحال مکافات عمل سے گزرنا پڑا، کہ الیکشن ہی نہ لڑ سکے۔تاہم عاطف خان (سکولز ایجوکیشن ) اور مشتاق غنی (ہائر ایجوکیشن) آن ریکارڈ پنجاب اور سندھ کے وزرائے تعلیم سے کئی درجہ بہتر رہے۔
پھر ماضی کی اس تلخی اور دلخراش اقدام کو تاریخ شاید نہ بھول پائے کہ، تعلیم کے حوالے سے بلیغ الرحمان ہائر ایجوکیشن، ہائر ایجوکیشن کمیشن اور بین الاقوامی سکالرز شپ ، حتی کہ اسلام آباد میں وائس چانسلرز اور دیگر ریکروٹمنٹس کے تناظر میں کم فہم ثابت ہوئے جس کا نقصان مرکز اور تعلیم کو بھگتنا پڑا۔ مرکزی امورصحت کے حوالے سے سائرہ افضل تارڑ صاحبہ پانچ سال محض پولیو میں کمی لانے کا راگ الاپتی رہیں جو دراصل بین الاقوامی اداروں اور عالمی این جی اوز کی کارکردگی تھی۔ وزیر اعظم ہیلتھ انشورنس پالیسی یا کارڈ سے تارڑ صاحبہ کا دور کا بھی تعلق نہ تھا یہ میاں نواز شریف یا مریم نواز کا برین چائلڈ تھا۔ ادھر زمانہ روتا رہا لیکن ڈرگز کنٹرول پر کوئی کام نہ ہوسکا۔ ڈریپ (ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان) کو ازخود ایک سینٹ کمیٹی نے پاکستان کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دیا۔ مگر محترمہ ایک بدنام زمانہ ڈریپ سربراہ کو کافی عرصہ بچاتی رہیں۔ پرسوں ترسوں عدالت عظمی کو کہنا پڑا ہے کہ ڈرگز کنٹرول اور نرخوں کے حوالے سے چند ہفتوں میں رزلٹ دیں۔ افسوس کہ یہ امور 5 سال نہ نمٹائے گئے، فارمیسی کونسل آف پاکستان کو بہتر کرنے کے بجائے ایک من پسند سیکرٹری کو سونپ دیا ، جسے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی نوازنے کا عمل جاری رہا، یہ شخص نرسنگ کونسل آف پاکستان پر بھی رعب جماتا کہ، میں وزیر کا چہیتا ہوں لہذا سکہ میرا چلے گا، اور خوب چلایا۔ بڑے قصے کہانیاں سنائی جاتیں کہ، پی ایم ڈی سی کو یہ کردیا وہ کردیا لیکن پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی چوربازاری کو نکیل ڈالی تو عدالت عظمی نے۔ اب آنے والی حکومت کا فرض ہے کہ عدالت کی لائی ہوئی بہتری اور وژن کو صحت کے امور میں مرکزی اور صوبائی سطح پر آگے لے کر چلے۔ اور نامکمل پراجیکٹس کو جلد از جلد مکمل کرے۔ اور تحریک انصاف جو پچھلے 5 سالہ دور میں کے پی کے فارمیسی کونسل کو معیار دینے سے قاصر رہی اب کوئی کوتاہی نہ کرے۔ بلوچستان اور سندھ کی فارمیسی کونسلیں بھی پنجاب فارمیسی کونسل کے مقابلہ میں ڈیڈ باڈیز ہیں۔ پنجاب فارمیسی کونسل بھی مزید بہتر ہوسکتی تھی مگر اس کو سیکرٹری ہی آج تک مناسب نہیں مل سکا، کسی کو چارج ملتا رہا تو کسی کو ناجائز اگلا گریڈ۔ سیکرٹریز ہیلتھ اور سابق وزیر خواجہ سلمان رفیق نے کونسل کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی تھی۔ کیا امید رکھیں کہ اگلی حکومتیں فارمیسی کونسلوں کو نظرانداز نہیں کریں گی؟
رہی بات ہائر ایجوکیشن کی، تو اس ضمن میں بس اتنی گزارش ہے ، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی سابق حکومتوں نے یونیورسٹیوں کے قیام سے لے کر وائس چانسلرز کی تقرریوں تک، اور سنڈیکیٹ کے فیصلوں سے پروموشنز تک کو سیاسی رنگ میں ایسا رنگ دیا کہ، تعلیمی و تحقیقی رنگ پھیکے پڑگئے تاہم غیر جانبدارانہ رائے کے مطابق کے پی کے سرچ کمیٹی برائے وائس چانسلرز تکنیکی ضروریات اور تعلیمی و تحقیقی نزاکتوں کے عین مطابق رہی۔
ذہن نشین رہے کہ، ن لیگ حکومت جاتے جاتے ڈاکٹر طارق بنوری کو چئیرمین ایچ ای سی لگا گئی۔ خواص و عوام کا خیال ہے کہ ڈاکٹر طارق بنوری بہتر چوائس ہیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ لیکن ہمیں سرچ کمیٹی برائے چئیرمین کی کریڈیبلٹی پر بہرحال کئی حوالوں سے شک تھا۔ خیر جو ہوا سو ہوا۔ اب نئے چیرمین کا کام ہے کہ، وہ اپنا کردار ادا کرے، چئیرمین کا درجہ وفاقی وزیر مملکت سا ہے۔ قوم کو یہ کم و بیش نو دس لاکھ ماہانہ میں پڑتا ہے لہذا مثبت نتائج برآمد نہ ہوئے، تو پیراسائٹ ازم ہی ہو گا! گویا ضرورت ہے کہ تعلیم اور صحت کو 18 ویں ترمیم کے تناظر میں دیکھا جائے ، سبھی صوبے اپنی اپنی پی ایم ڈی سی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن بنائیں۔ ڈگری کالجز سے پوسٹ گریجوایٹ کالجز کو صوبائی ایچ ای سی دیکھے، تمام یونیورسٹیوں اور ان کی ریسرچ کو مرکزی ایچ ای سی کے تابع کیا جائے۔ بین الاقوامی تعلیمی وتحقیقی امور اور سکالر شپس کے علاوہ رینکنگ اور احتساب ایچ ای سی پاکستان دیکھے۔ رینکنگ میں تھرڈ پارٹی سسٹم متعارف کرایا جایا۔ یونیورسٹی کیٹگریز کا ازسر نو جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ پچھلے دنوں ایک ایسی یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا جہاں ایک وی سی کے خلاف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں کم و بیش 10 کیس چل رہے ہیں۔ اور اس نے سٹاف کے خلاف الگ کیس کر رکھے ہیں، غور کی ضرورت ہے کہ، یہ کیس دراصل یونیورسٹی کے خلاف ہیں یا وی سی کے؟ ان مقدمات پر اٹھنے والے اخراجات سٹوڈنٹس کی فیسوں سے ادا تو نہیں ہورہے؟ ایک اور یونیورسٹی گئے تو معلوم ہوا اس کے وائس چانسلر محکمہ تعلیم کی راہنمائی کو یکسر نظرانداز کئے رکھنے کے عادی ہیں۔ ایک جامعہ ایسی بھی دیکھی جس کے سربراہ نے چانسلر کے احکامات کو سرا سر بے آبرو کیا۔۔۔۔ پھر ایک یونیورسٹی ایسی دیکھی جس کی کمپیٹینٹ اتھارٹی یعنی سنڈیکیٹ کے سبھی ممبران جانبدار اور مخصوص مافیا کے ہم نوا پائے۔ یہی نہیں پروفیسر مافیا اور رجسٹرار کے حوالے سے ایک جگہ غنڈہ ایکٹ یونیورسٹی ایکٹ پر غالب دیکھا۔ مالی کرپشن کو سپرد قلم کرتے بھی شرم آتی ہے،کہیں ایسا بھی دیکھا کہ، نیا وائس چانسلر جانے والے وائس چانسلرز کو کرپٹ ثابت کرکے اپنی کرپشن چھپانے کے درپے ہے۔ اگر متذکرہ جرائم کی اکثریت کسی ایک ہی یونیورسٹی میں ہو، تو ایسی یونیورسٹی کو تالے نہیں لگا دینے چاہئیں؟ یونیورسٹیاں کسی کی داداگیری کیلئے نہیں قومی شعور اور ترقی کیلئے ہوتی ہیں؟ کیا یونیورسٹیوں کو پھر عدالتوں ہی نے چلانا ہے یا چانسلر کا ڈاکخانہ آفس اور کمیشن کے دفاتر کوڑھ کی کاشت کو روکنے سے قاصر ہیں؟ گر قاصر ہیں تو پھر وجود کا فائدہ؟ کیا جامعات نیب یا عدالتوں کے سپرد کردیں؟ نہیں تو بہتر ہے 3 ریٹائرڈ وائس چانسلرز، 1 سابق چانسلر، 1 سابق جرنیل ، 1 سابق چیف سیکرٹری اور ایک سابق سپریم کورٹ جج پر مشتمل 7 رکنی تعلیمی احتساب کونسل بنا لی جائے جس کا سربراہ ایچ ای سی کا چیرمین ہو! ماضی میں نافہم پنجاب سرچ کمیٹی کی لاہور ہائی کورٹ
(14-11-2016 and ICA / double bench decision 25-2-2017)
فیصلوں سے بڑی کونسلنگ کی مگر لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر۔ ازراہ کرم چیئرمین ایچ ای سی صوبائی کرتے دھرتوں کو ساتھ بٹھائیں اور ان فیصلوں کا اجتماعی و انفرادی مطالعہ ضرور کریں، اور آگے چلیں!
دیکھتے ہیں نئی گڈ گورننس میں صحت اور تعلیم کے "روایتی" وزراءہی آتے ہیں یا مسیحا اور حکیم؟ بیوروکریسی اور مافیاز کے شکنجوں سے تعلیم کو پناہ کیسے ملتی ہے؟ یا مکھی پر مکھی مارنے والے لوگوں کی تعداد امور صحت میں بڑھائی جاتی ہے؟ اب یوٹرن ، "او" ٹرن یا سیاسی جوش خطابت نہیں، اب عمل درکار ہے۔ نئی اور پرانی حکومتوں کے عملوں کا موازنہ تو پھر ہوگا، جب پتہ چلے گا کہ کسے کہتے ہیں اچھا متبادل اور گڈ گورننس، جانا۔

ای پیپر دی نیشن