احمد جمال نظامی
فیصل آباد ڈویژن سے قومی اسمبلی کی 10نشستیں اور پنجاب اسمبلی کی 21نشستیں ضلع فیصل آباد میں ہیں اور 25جولائی کو ان میں سے این اے 103 اور پی پی 103 کے سوا باقی تمام نشستوں کے انتخابات مکمل ہو گئے۔ تاندلیانوالہ سے قومی و صوبائی اسمبلی کی ان نشستوں پر الیکشن اس لئے نہیں ہو سکے کہ ان دونوں نشستوں پر آزاد حیثیت سے حصہ لینے والا ایک امیدوار انتخابی مہم کے دوران اپنے بیٹوں کی طرف سے انتخابی مہم میں تعاون نہ کرنے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خودکشی کر کے وفات پا گیا ہے۔ ان دونوں نشستوں پر اب ضمنی الیکشن ایک سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہونے والے لیڈروں کی خالی کی جانے والی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے ساتھ ہی ہو سکیں گے تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ضمنی الیکشن میں تینوں بڑی جماعتوں کے امیدوار وہی ہوں گے جو 25جولائی کے الیکشن کے لئے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف نے نامزد کر رکھے تھے۔ این اے 103 کے لئے تحریک انصاف کا امیدوار بدل جائے گا۔ 25دسمبر کے الیکشن کے لئے پیپلزپارٹی نے اپنے قومی اسمبلی کے سابق رکن شہادت علی بلوچ کو اپنا امیدوار نامزد کر رکھا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے امیدوار گوہر بلوچ ہیں جو سابق رکن قومی اسمبلی رجب علی بلوچ کے چھوٹے بھائی ہیں اور رجب علی بلوچ کی وفات کے باعث مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف نے علی گوہر بلوچ کو خود پارٹی ٹکٹ کے لئے گرین سگنل دیا تھا۔ تحریک انصاف نے اس نشست کے لئے شہادت بلوچ کے 1980ءاور 1990ءکے عشروں کے انتخابی حریف ناصر علی بلوچ کے صاحبزادے سعد اللہ بلوچ ہیں۔ 25جولائی کے انتخابات سے پہلے سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو کے بیٹے اور بیٹی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور انہیں پارٹی ٹکٹ بھی جاری کر دیئے گئے تھے لیکن ان دونوں کو اپنے مدمقابل امیدواروں سے شکست ہو گئی ہے کیونکہ تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنوں نے وٹو خاندان کو پیپلزپارٹی کے الیکٹ ایبلز کے طور پر پذیرائی نہیں دی۔ میاں منظور احمد وٹو خود کسی بھی پارٹی کے ٹکٹ کے بغیر قومی اسمبلی کے حلقے میں آزاد امیدوار تھے۔ یہ بالکل فیصل آباد کے این اے 101 جیسا منظر تھا۔ این اے 101 چک جھمرہ کے الیکٹ ایبلز ساہی خاندان کو تحریک انصاف کے ٹکٹوں پر سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری عاصم نذیر، تحریک انصاف کے سابق سیکرٹری جنرل فیصل آباد محمد اجمل چیمہ اور مسلم لیگ(ن) کے پی پی 98 میں نامزد امیدوار رانا شعیب ادریس کے ہاتھوں زبردست ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ بالکل اسی طرح اوکاڑہ سے میاںمنظور احمد وٹو اور ان کے بیٹے اور بیٹی کو شکست ہو گئی ہے۔ فیصل آباد کے حلقہ 103 میں بلوچ برادری کے بعد دوسری بڑی برادری وٹو برادری ہے۔ میاں منظور احمد وٹو 1993ءکے الیکشن میں ضلع اوکاڑہ کی تین نشستوں سے ہار گئے تھے اور انہوںنے تاندلیانوالہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے تھے اور وٹو برادری نے انہیں اس نشست سے کامیاب کرا دیا تھا۔ ان دنوں وہ مسلم لیگ جونیجو گروپ کا حصہ تھے اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی میں کم و بیش برابر نمائندگی کے باعث تخت لاہور پر قبضہ کے لئے ضروری تھا کہ جونیجولیگ کے 15ارکان اور اتنے ہی آزاد امیدوار اپنی اپنی وابستگی سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں سے کسی ایک کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر حکمرانی کا فیصلہ کریں۔ پیپلزپارٹی نے میاںمنظور احمد وٹو کو صوبے کا وزیراعلیٰ نامزد کر دیا اور انہوں نے سیاسی جوڑ توڑ سے صوبے میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنا لی۔ فیصل آباد سے رانا آفتاب احمد خاں اور چوہدری بدرالدین اس حکومت میں پیپلزپارٹی کے صوبائی وزیر تھے۔ بات تاندلیانوالہ کے متوقع ضمنی الیکشن سے دور نکل گئی ہے کہنے کا مطلب ہے کہ میاں منظور احمد وٹو این اے 103 اور پی پی 103 کے ضمنی الیکشن میں ضلع اوکاڑہ سے تاندلیانوالہ میں امپورٹ ہو کر خود یا اپنے بیٹے کو تحریک انصاف کا ٹکٹ دلوانے کی کوشش کریں گے تاکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے بلوچ امیدواروں میں بلوچ ووٹ بینک تقسیم ہونے کا فائدہ اٹھا کر قومی اسمبلی کی یہ نشست جیت سکیں لیکن تحریک انصاف سے سعد اللہ بلوچ، پیپلزپارٹی سے شہادت بلوچ اور مسلم لیگ(ن) سے علی گوہر بلوچ کی صورت میں تینوں بلوچ امیدواروں کے مقابلے میں ان کا ایسا کوئی خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ عمران خان نے اسلام آباد، بنوں، میانوالی لاہور اور کراچی سے قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اسلام آباد سے این اے 53 سے انہوں نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو شکست دی تھی۔ شاہد خاقان عباسی این اے 57 سے بھی ایک تحریک انصاف کے امیدوار صداقت عباسی کے مقابلے میں 25جولائی کا الیکشن ہار گئے تھے۔ وہ عمران خان کی خالی کردہ این اے 53 سے یقینا ضمنی الیکشن کا دنگل لڑیں گے۔ بنوں کی نشست پر عمران خان نے اکرم درانی کو شکست دی تھی۔ اکرم درانی ایک دوسری نشست سے کامیاب ہو چکے ہیں لہٰذا بنوں سے اب ایم ایم اے مولانا فضل الرحمن کو ضمنی الیکشن جتوانا چاہے گی کیونکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں وہ اپنی دونوں نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں سے الیکشن ہار گئے تھے اور اس وقت زندگی میں پہلی مرتبہ وہ پارلیمانی سیاست سے باہر ہیں۔ عمران خان نے لاہور سے این اے 131 کی نشست خالی کی ہے اور اس نشست پر انہوں نے مسلم لیگ(ن) کے ”لوہے کے چنے“ کو چبا کر پھینکا ہے اور ابھی تک اپنے دانتوں میں درد محسوس کر رہے ہیں۔ عمران خان کو این اے 131 کی نشست اپنے پاس رکھنی چاہیے تھی۔ سعد رفیق نے الزام لگایا ہے کہ عمران خان نے یہ نشست 50کروڑ روپے میں جیتی ہے۔ اگر اس نشست کو جیتنے میں اتنی خطیر رقم ضائع ہوئی ہے تو عمران خان کو اپنی میانوالی کی نشست چھوڑ دینی چاہیے تھی۔ اب ضمنی الیکشن میں سعد رفیق اس نشست پر افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دینے والے جنرل محمد ضیاءالحق کے دست راست لیفٹیننٹ جنرل اختر عبدالرحمن کے صاحبزادے ہمایوں اختر تحریک انصاف کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔ وہ ماضی میں مسلم لیگ(ن) کی طرف سے اس نشست پر الیکشن لڑتے اور جیتتے رہے ہیں اور 25جولائی کو اس نشست سے عمران خان کو کامیاب کرانے میںبھی ان کا کردار شامل رہا ہے جبکہ علامہ اقبال کے پوتے اور ڈاکٹر جاوید اقبال کے بیٹے ولید اقبال، حمزہ شہباز کی خالی کی جانے والی قومی اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف کے متوقع امیدوار ہوں گے۔ حمزہ شہباز نے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داری نبھانے کے لئے اپنا قومی اسمبلی کا لاہور کا حلقہ خالی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سعد رفیق کو پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کے ساتھ رہنا چاہیے تھا۔ میاں محمد شہبازشریف کو چاہیے کہ وہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے کے لئے چوہدری نثار علی خاں کو واپس پارٹی میں لے آئیں اور حمزہ شہباز کو ان کا ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بنا دیں ویسے نثار علی خاں کے پاس این اے 59 یا این اے 63 میں کسی ایک پر ضمنی الیکشن لڑنے کا چانس موجود ہے۔ ان دونوں نشستوں پر تحریک انصاف کے غلام سرور خاں کامیاب ہوئے ہیں اور وہ ان دونوں میں سے ایک نشست خالی کریں گے۔ عمران خان نے چوہدری نثار علی خاں کو اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت بھی دی تھی اور یہ دعوت بھی دی تھی کہ وہ دونوں حلقوں میں سے ایک حلقہ غلام سرور خاں کے لئے چھوڑ دیں اور دوسرے حلقے پر تحریک انصاف ان کی حمایت کرے گی۔ چوہدری نثار علی خاں پنجاب اسمبلی کی ایک نشست بھی ہار چکے ہیں تاہم ان کے پاس پنجاب اسمبلی کی ایک نشست باقی ہے۔ انہیں غلام سرور خاں کی خالی کردہ قومی اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف سے نامزدگی مل سکتی ہے اور وہ مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کے طور پر بھی غلام سرور خاں کی خالی کردہ نشست پر الیکشن میں اتر اور جیت سکتے ہیں جبکہ چوہدری نثار احمد 25جولائی کے انتخابات سے قبل اپنے انتخابی جلسوں میں واضح طور پر اعلان کرتے رہے ہیں کہ وہ کبھی بھی تحریک انصاف کا حصہ نہیں بنیں گے وہ بنیادی طور پر مسلم لیگی ہیں مگر الیکشن آزاد حیثیت سے لڑیں گے۔ اب دیکھتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ان کی محاذ آرائی الیکشن ہارنے کے بعد ”سیزفائر“ کی صورت میں ختم ہوتی ہے یا کہ نہیں، اس کا فیصلہ یقینا چوہدری نثار احمد نے خود کرنا ہے۔ مسلم لیگ ضیاءکے اعجازالحق بھی اس مرتبہ ہارون آباد سے الیکشن ہار چکے ہیں اور ان کی نظریں اب این اے 60 راولپنڈی پر لگی ہوئی ہیں۔ اس حلقہ پر شیخ رشید اور مسلم لیگ(ن) کے حنیف عباسی کے درمیان مقابلہ ہونا تھا کہ 22جولائی کو حنیف عباسی کو ایفی ڈرین منشیات کے مقدمہ میں عمرقید کی سزا ہو گئی اور اس حلقہ کا الیکشن ملتوی ہو گیا تھا۔ اعجازالحق جو کہ فوجی حکمران ضیاءالحق کے صاحبزادے ہیں اور انہوں نے خود کو سیاست میں زندہ رکھنے کے لئے ضیاءمسلم لیگ کے نام سے ایک گروپ قائم کر رکھا ہے۔ ویسے تو وہ میاں نوازشریف کی حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں مگر اب دیکھتے ہیں کہ انہوں نے جو ڈیڑھ انچ کی مسجد یعنی مسلم لیگ ضیاءبنا رکھی ہے وہ اسی کی طرف سے میدان میں اترتے ہیں یا پھر مسلم لیگ(ن) سے مدد لیتے ہیں۔ عمران خان قومی اسمبلی کا ایک حلقہ کراچی سے بھی خالی کریں گے۔ چوہدری پرویزالٰہی نے پنجاب اسمبلی کا سپیکر بننے کے لئے اپنی گجرات کی نشست خالی کر کے وہاں سے اپنے بیٹے مونس الٰہی اور اپنی منڈی بہا¶الدین کی نشست خالی کر کے وہاں سے محمد حیات ٹمن کو مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ اور تحریک انصاف کی ایڈجسٹمنٹ سے ضمنی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ بات این اے 103 کے ضمنی الیکشن سے شروع ہوئی تھی اور بات سے بات نکلتی اور آگے بڑھتی رہی حالانکہ فیصل آباد ڈویژن کے تین اضلاع ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ اور چنیوٹ سے قومی اسمبلی کی آٹھ اور پنجاب اسمبلی کی 17 نشستوں پر ہار جیت کے فیصلوں پر ہے۔ فیصل صالح حیات، چوہدری اسدالرحمن رمدے، چوہدری محمد اشفاق، پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی گوجرہ حاجی محمد اسحاق اور کمالیہ سے مسلم لیگ(ن) کی پنجاب اسمبلی کی امیدوار نازیہ راحیل کی شکستوں کی صورتوں میں ماضی کے نامی گرامی پارلیمنٹیرین کے نام اور ان کی جگہ زیادہ تر نئے ناموں کی کامیابی بطور خاص قابل ذکر ہے۔ گوجرہ این اے 111 سے مسلم لیگ(ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی خالد جاوید وڑائچ نے تحریک انصاف کے اسامہ حمزہ اور پیپلزپارٹی کے حاجی محمد اسحاق سمیت اپنے بڑے بھائی نیشنل مسلم لیگ کے امجد وڑائچ کو شکست دی۔ این اے 112 ٹوبہ ٹیک سنگھ شہر اور رجانہ کی قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ(ن) کے جنید انوار نے تحریک انصاف کے چوہدری محمد اشفاق کو شکست سے دوچار کیا۔ جنید انوار اس حلقہ سے 1980ءاور 1990ءکے عشرے میں قومی اسمبلی کے رکن چوہدری عبدالستار کے پوتے ہیں۔ وہ اس حلقہ سے تیسری مرتبہ مسلسل رکن قومی اسمبلی بنے ہیں۔ این اے 113 کمالیہ، پیرمحل کی نشست پر ریاض فتیانہ نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر سپریم کورٹ کے سابق جسٹس خلیل رمدے کے بھائی چوہدری اسدالرحمن رمدے کو شکست دی ہے۔ چوہدری اسد الرحمن رمدے الیکشن 2013ءمیں بھی اس حلقہ سے قومی اسمبلی کے امیدوار منتخب ہوئے تھے اور اس سے پہلے 1990ءاور 1997ءکے انتخابات میں بھی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ وہ 1997ءکی قومی اسمبلی میں چیف وہپ بھی تھے۔ ریاض فتیانہ کی بیوی آشفتہ ریاض نے مسلم لیگ(ن) کی نازیہ راحیل کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ نازیہ راحیل سابق رکن پنجاب اسمبلی ہیں اور انہیں پہلے چوہدری محمد اشفاق نے تحریک انصاف جوائن کرنے کے لئے قائل کرنے کے بعد اس حلقہ سے تحریک انصاف کا ٹکٹ جاری کروا دیا تھا۔ ضلع چنیوٹ میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں این اے 99 اور این اے 100 ہیں۔ این اے 99 سے تحریک انصاف کے مہر غلام محمد لالی اور این اے 100 سے مسلم لیگ(ن) کے قیصر احمد شیخ کامیاب ہوئے۔ ضلع چنیوٹ سے پی پی 94 سے مسلم لیگ(ن) کے الیاس چنیوٹ اور پی پی 95 سے پیپلزپارٹی کے سید حسن مرتضیٰ کامیاب ہوئے۔ پی پی 96 سے تحریک انصاف کی سلیم بی بی بھروانہ کامیاب ہوئیں جبکہ پی پی 93 سے آزاد امیدوار تیمور لالی پنجاب اسمبلی کے رکن بنے۔ ضلع جھنگ سے قومی اسمبلی کی تینوں نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو کامیابی ملی ہے۔ این اے 114 سے صاحبزادہ محبوب سلطان نے پیپلزپارٹی کے فیصل صالح حیات سمیت چار دوسرے امیدواروں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ این اے 115 سے تحریک انصاف کی غلام بی بی بھروانہ نے آزاد امیدوار مولانا محمد احمد لدھیانوی کو اور این اے 116 پر صاحبزادہ امیر سلطان نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر مولانا آصف معاویہ کو شکست سے دوچار کیا۔ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 124 پر رائے تیمور حیات بھٹی آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے۔ حلقہ پی پی 125 سے آزاد امیدوار فیصل حیات جبوآنہ، پی پی 126 سے آزاد امیدوار معاویہ اعظم کامیاب ہوئے۔ حلقہ پی پی 127 سے آزاد امیدوار مہر اسلم بھروانہ جبکہ پی پی 128 سے تحریک انصاف کے کرنل(ر) غضنفر عباس قریشی کامیاب ہوئے۔ مسلم لیگ(ن) کے رانا ثناءاللہ خاں نے مولانا محمد احمد لدھیانوی کے ہمراہ ضلع جھنگ اور چنیوٹ سے کامیاب ہونے والے پانچ آزاد امیدواروں سے ملاقات کر کے انہیں مسلم لیگ(ن) میں شامل ہونے کی دعوت دی جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے سینیٹر چوہدری محمد سرور نے ان تمام آزاد امیدواروں کو تحریک انصاف کا حصہ بننے کو کہا۔ ان کی کوششوں سے ضلع چنیوٹ کے تیمور لالی اور ضلع جھنگ کے تیمور حیات بھٹی نے تحریک انصاف جوائن کر لی ہے جبکہ ضلع جھنگ کے باقی تینوں آزاد ارکان پنجاب اسمبلی فیصل حیات جبوآنہ، مہر محمد اسلم بھروانہ اور معاویہ اعظم ابھی حالات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ تحریک انصاف انہیں ضلع جھنگ کی ترقی کے لئے کیا پیکج دینے کا وعدہ کرتی ہے۔
فیصل آباد :31قومی اور صوبائی نشستوں کے انتخابی نتائج کون جیتا کون ہارا
Aug 06, 2018