رانا زاہد اقبال
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے آئی ایم ایف کو انتباہ کیا ہے کہ پاکستان میں نئی بننے والی حکومت کو چینی قرض کی ادائیگی کے لئے بیل آوٹ پیکیج نہ دیا جائے۔ امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک ایسے اداروں کوہمیشہ سے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔ امریکی انتظامیہ کی جانب سے ایسی باتیں سامنے آنا بڑا حیران کن ہے کیونکہ انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ ایک خود مختار ادارہ ہے جس کو ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں اور اس کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔ آئی ایم ایف کے قیام کا بنیادی مقصد مشکل صورتحال سے دوچار ملکوں کو بیل آؤٹ پیکیج کے ذریعے مدد دینا ہے ۔ جب کہ پاکستانی معیشت کی یہ ابتری صرف خطے میں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجہ میں ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے بعد سے پاکستان کی معیشت جو پہلے بھی کچھ زیادہ مستحکم نہیں تھی مکمل طور پر دباؤ میں رہی ہے۔
آئی ایم ایف کے رکن ممالک فنڈز میں اس کے کوٹہ کے تناسب سے ایک رقم جمع کراتے ہیں۔ کوئی بھی ملک اپنے اقتصادی حالات خراب ہونے کی صورت میں آئی ایم ایف سے اس کوٹہ کے مطابق یا اس سے زیادہ قرضہ لے سکتا ہے۔ یہ ادارہ کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے بلکہ اقوامِ متحدہ نے اسے اس کام کے لئے مقرر کیا ہے جس میں دنیا بھر کے ماہرین ملکی اور عالمی مالیاتی اداروں و اقتصادی امور پر نظر رکھتے ہیں۔حالیہ مہینوں میں پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان کی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے جب کہ برآمدات کم ہو گئی ہیں اور توازنِ ادائیگی پاکستان کے حق میں نہیں رہا۔ یہ سب عوامل مل کر پاکستانی معاشی صورتحال کو غیر مستحکم کرنے کا باعث بن رہے ہیں اور اسی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف سے اقتصادی پیکیج حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ ایسے ممالک کی ایک طویل فہرست ہے جو آئی ایم ایف سے فائدہ اٹھا کر اپنی معیشتیں درست کر چکے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر ایسی کیا مجبوری پیش آ گئی جو امریکہ جیسی سپر پاور کو عالمی ادارے کے ساتھ پاکستان کے جاری معاملات میں واضح طور پر مخالف فریق کے طور پر آ گئی۔
پاکستان اگر اس ادارے سے قرض لے کر اس کو کہیں استعمال کرتا ہے یہ تو پاکستان کی مرضی ہے کہ اپنے لئے قرضے کو جہاں چاہے استعمال کرے۔ امریکہ کا پاکستان کی معیشت کے حوالے سے اب تک جو رویہ ہے وہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں پاکستان کو اس کے کسی بھی اتحادی سے زیادہ نقصان ہوا ہے مگر اب جب پاکستان اقتصادی مشکلات میں گھرا ہوا ہے تو بجائے خود کھلے دل سے مدد کرنے کے آئی ایم ایف کو بھی ڈکٹیشن دے رہا ہے۔ امریکہ کا دہشت گردی میں قریبی ساتھی معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے تو اسے چاہئے تھا کہ پوری دنیا کی تجارتی منڈیاں اپنے دوست کے لئے کھلوا دے تا کہ اس ملک کے اقتصادی مسائل مستقل بنیادوں حل ہو سکیں الٹا امریکہ نے پاکستان کی کولیشن سپورٹ فنڈز میں بھی کٹوتی کر دی ہے۔ امریکہ کے اس قسم کے رویوں کا پاکستان ماضی میں بھی شکار رہا ہے۔سوویت یونین کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد بھی پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا تھا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اقوام عالم کو تسلیم کرنا پڑے گا ماضی میں بھی اور اب بھی پاکستان کے ساتھ امریکہ کا رویہ نا انصافی پر مبنی رہا ہے۔ پاکستان 60ء کے عشرے سے امریکہ اور مغرب کا عملی طور پر ساتھ دئیے جا رہا ہے اس کے باوجود امریکہ نے دفاعی، معاشی اور سیاسی لحاط سے استحکام حاصل کرنے میں پاکستان کی حتی المقدور مدد نہیں کی۔ آج 2018ء میں پاکستان کو اپنی ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لئے کافی فنڈز درکار ہیں۔ امریکہ سمیت دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے لئے یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔ جب پاکستان کو امریکہ کی طرف سے مدد کی ضرورت ہے تو وہ نظریں پھیرے ہوئے بیٹھا ہے۔ امریکہ نہ صرف خود پاکستان کی عملی مدد پر آمادہ نہیں ہے بلکہ اپنے زیرِ کنٹرول عالمی مالیاتی اداروں کو بھی شہہ دے رہا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے بیل آؤٹ پیکیج کی مخالفت کی یہ منطق پیش کی ہے کہ پاکستان اس کے ذریعے چین کا قرضہ اتارے گا۔ امریکہ کا یہ رویہ معاندانہ ہونے کے ساتھ عالمی اداروں کی اپنی ساکھ کے لئے بھی مضحکہ خیز ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئی ایم ایف امریکہ کا ذیلی یا ماتحت ادارہ ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کینگ شوان نے امریکی بیان کے ردِ عمل میں امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو مشورہ دینے کی بجائے جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری کے لئے شراکت کرے۔ چین کا یہ ردِ عمل پاکستان کے لئے مثبت پیغام کے ساتھ اعانت کا اشارہ بھی ہے۔ چین نے بارہا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو تسلیم کیا جائے۔ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود اس کو اب تک اس کا جائز صلہ نہیں ملا۔ وہ اس کے لئے بین الاقوامی فورموں پر آواز بھی اٹھاتا رہتا ہے۔
پاکستان چین کے تعلقات وقت کی آزمائشوں پر پورے اتر چکے ہیں۔ امریکہ کو چین پاکستان کے معاملات میں دراڑ ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ ایک طرف دہشت گردی کی جنگ ہے تو دوسری طرف ہولناک معاشی بحران میں پھنس چکے ہیں۔ اس بحران میں زندہ رہنے اور سانس لینے کے لئے چین ہی ہماری مدد کر رہا ہے۔ امریکہ سمیت عالمی برادری کا فرض بنتا ہے کہ وہ چین کی طرح ان مشکل حالات میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔ پاکستان اس وقت ایک اہم مرحلے سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کو بہت سی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے، بہادر پاکستانی عوام اب تک کسی سے مغلوب نہیں ہوئے نہ آئندہ ہوں گے۔ پاکستانی عوام یقیناً مشکلات پر قابو پا لیں گے اور نئی امیدوں کے ساتھ نئی ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ پاکستانیوں کو دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنی مشکلات خود حل کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ پاکستان جن مشکلات میں گھرا ہے دنیا کے کئی ممالک اس سے بھی زیادہ مشکل حالات سے سرخرو ہو کر ترقی اور استحکام حاصل کر چکے ہیں۔ قوموں کا عزم بلند ہو، ان میں محنت کرنے کا، خود مختاری اور سر اٹھا کر جینے کا جذبہ ہو تو برے سے برے حالات میں بھی کامیابی کا راستہ مل جایا کرتا ہے۔ پاکستان کو تو بہترین محلِ وقوع، نہایت قیمتی قدرتی وسائل اور جفاکش و با صلاحیت افرادی قوت میسر ہے۔ نئی حکومت کے انتخاب کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے ،آنے والے دنوں میں عوام کو بہت سے امیدیں وابستہ ہیں اور انشاء اللہ ان امیدوں پر پورا اترنے کی بھر پور کوششیں جاری رہیں گی۔
امریکہ کیلئے روس اور افغانستان کا خمیاز بھگتنے والے پاکستانی
Aug 06, 2018