کی ہویا جے قیدی بنیا !

شریف خاندان کے سربراہ میاں شریف اور روزنامہ نوائے وقت کے معمار جناب مجیدنظامی حضرت میاں محمد بخش کے کلام کے شیدائی تھے ممتاز نعت خواں عبد الرزاق جامی ان کی اس کمزوری بن گئے تھے، عبدالرزاق جامی مہینوں ’’جاتی امرائ‘‘ میں میاں شریف کے ذاتی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے اور پہروں میاں شریف کو حضرت میاں محمد بخش کا کلام سنا کر ’’مدہوش‘‘ رکھتے۔ جنرل پرویز مشرف نے شریف خاندان کو سعودی عرب جلا وطن کر دیا تو میاں شریف نے انہیں جدہ میں سرور پیلس بلوا لیا اور مہینوں اپنے پاس رکھا ۔ جب کبھی عبدالرزاق جامی نوائے وقت ہائوس میں قدم رکھتے تو جناب مجید نظامی ان سے حضرت میاں محمد بخش کے کلام کی فرمائش کرتے یہ دونوں بزرگ شخصیات اب اس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کی شاندار روایات بر قرار ہیں عبد الر زاق جامی کے لئے جاتی امراء میں ایک کمرہ مختص ہے وہ ہر جمعہ کو میاں شریف کی قبر پرمحفل نعت سجاتے ہیں ۔جمعرات کو عبدالرزاق جامی نے اڈیالہ جیل میں قیدی نمبر 3421 میں میاں نواز شریف اور قیدی نمبر1422مریم نواز سے ملاقات کی تو ان کی زبان پر حضرت میاں محمد بخش کا یہ کلام تھا
؎ کی ہویا جے قیدی بنیا
سدا نہیں قیدی رہنا
اک دن آسی فر محمد
آ سنگاں رل بہنا
13جولائی 2018ء کو میاں نواز شریف اوربہادر بیٹی مریم نواز جیل جانے کے لئے آئے تو کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ ’’باپ بیٹی‘‘ اتنی جرات و استقامت سے جیل کا ٹیں گے ، مچھر کاٹنے کی شکایت زبان پر لائی اور نہ ہی انہوں نے زمین پر سونے کا گلہ کسی سے کیا ۔ میاں نواز شریف جنہوں نے بہت کم کتابوں سے دوستی رکھی لیکن ان دنوں ’’مغلوں کی تاریخ‘‘ پڑھ رہے ہیں جب کہ مریم نواز نے تو دنیا کی مشہور شخصیات کی کتب کو جیل میں اپنا ساتھی بنا لیا ہے ۔ بہادر بیٹی نے اپنے عظیم والد کو چھوڑ کر سہالہ ریسٹ ہائوس جانے سے انکار کر دیا ۔ میاں نواز شریف کو جسم سے پسینے کی صورت میں بہت زیادہ پانی کے اخراج سے گردے متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوا تو جیل انتظامیہ کو جان کے لالے پڑ گئے ، دل کے پرانے مریض ہونے کے باوجود میاں نواز شریف نے پمز ہسپتال اسلام آباد منتقل ہونے سے انکار کر دیا لیکن انہیں زبردستی ہسپتال لے جایا گیا میری خواہش تھی کہ میں پاکستان کی نئی سیاسی تاریخ رقم کرنے والے لیڈر کی پمز ہسپتال میں عیادت کروں لیکن پمز کے امراض قلب کے شعبہ کو ’’زنداں ‘‘ کی شکل دے دی گئی تھی میاں نواز شریف میڈیکل چیک اپ کے بعد ضد کر کے دوبارہ اڈیالہ جیل آگئے ۔میاں نواز شریف کو آج بھی اس پولیس اہلکار کے ٹپکے ہوئے آنسوئوں کی گرمی محسوس ہوتی ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو میاں نواز شریف ہتھکڑی لگا کر باندھا تھا میاں نواز شریف اس ڈاکٹر کے آنسوئوں کو نہیں بھلا پائے جو ان کا چیک اپ کرتے اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکا جو مریض کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے زارو قطار رو پڑا ۔میری نواز شریف سے دوستی 34 سال پر محیط ہے ممکن ہے میں بھی قیدی نمبر 1421کو اس حالت میں دیکھ کر جذباتی ہو جاتا ۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے نواز شریف کی دوستی کے ’’جرم‘‘ میں 12اکتوبر1999ء کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جمہوری حکومت پر شب خون مارنے کے کچھ عرصہ بعد جنرل پرویز مشرف کے ایک ’’قریبی ساتھی ‘‘ کی مدد سے راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب پر قبضہ کرایا گیااڈیالہ جیل میں ہفتہ میں ایک روز (جمعرات ) کومیاں نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر)محمد صفدر کی چیدہ چیدہ افراد سے ملاقات کرائی جاتی ہے اب توان کے ساتھ عمر قید کا چوتھا ساتھی حنیف عباسی بھی شامل ہو گیا ہے ۔ پچھلے 24، 25روز میاں نواز شریف اور مریم نواز جرات و استقامت سے جیل کا ٹ رہے ہیں وہ جرات و استقامت کا کو ہ ہمالیہ نظر آتے ہیں ۔ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد ضمانت کا قوی امکان تھا لیکن تاحال ان کی اپیل کی سماعت نہیں ہوئی ۔ اگرچہ ان کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائی گئی ہے لیکن پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ میاں نواز شریف کا ’’جرم ‘‘ کیا ہے اور وہ اپنے ’’ناکردہ گناہوں‘‘ کی ’’سزا‘‘ بھگت رہے ہیں ۔ میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کو ایک دوسرے کی دوستی پر ناز تھا جو محض اس لئے ختم ہو گئی کہ چوہدری نثار علی خان ان کوجس راہ پر لے کر جانا چاہتے تھے وہ جیل کا راستہ نہیں تھا لیکن میاں نواز شریف سر ’’جھکا‘‘ کر ’’مفاہمت ‘‘کا راستہ اختیار کرنے کی بات نہیں مانی شاید انہیں اس بات کی خوش فہمی تھی کہ انہوں نے کوئی ’’جرم‘‘ نہیں کیا لہذا کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔انہوں نے ’’کمپرو مائز‘‘ کی سیاست کرنے کی بجائے ’’جیل‘‘ جانے کو ترجیح دی ۔ آج میاں نواز شریف کا یہ دیرینہ ساتھی چوہدری نثار علی خان میاں شریف مرحوم کو بہت یاد کرتا ہے لیکن وہ میاں نواز شریف کو جیل تک پہنچانے میں ان کے کچھ ساتھیوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بانیان میں شمار ہونے والا چوہدری نثار علی خان ’’جیپ‘‘ پر الیکشن لڑنے پر مجبور کر دیا گیا اور میاں نواز شریف جیل ڈال دئیے گئے میاں نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو ’’سر ‘‘اٹھا کر زندہ رہنے کی سزا دی جارہی ہے چوہدری نثار علی خان اپنے آپ کو حق گوئی کا ’’سزاوار‘‘ سمجھتے ہیں ۔ جب اگست 2014ء میں’’کپتان‘‘ نے پارلیمنٹ پر ’’حملہ ‘‘کیا تھا تو اسے اس لئے ’’شکست‘‘ کا سامنا کرنا پڑا پوری پارلیمنٹ نواز شریف کی پشت پر کھڑی تھی ۔ عمران مسلسل اسلام آباد پر’’ حملہ آور ‘‘ ہوتا رہا لیکن اس کو اس لئے ’’پسپائی ‘‘ کا سامنا کرنا پڑا اس وقت انہیں چوہدری نثار علی خان جیسے ساتھیوں کی مشاورت حاصل تھی یہی وجہ عمران خان نے دونوں حلقوں میں ان کے مقابل اپنا امیدوار کھڑا کرکے ان کو ’’شکست‘‘ دے کر اپنا غصہ نکالا۔ جب نواز شریف کو اقتدار سے نکلوایا گیا تو وہ اس وقت آصف علی زرداری سمیت سب ہی نواز شریف کو جیل بھجوانے پر تلے ہوئے تھے پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم منظور کرانے میں مسلم لیگ (ن) سے تعاون نہ کر کے ان قوتوں سے تعاون کیا جن سے وہ ’’خوفزدہ‘‘ دکھائی دیتے تھے، اپنے ہی قبیلے کے ایک فرد کو جیل بھجوا کر’’ تماشا ‘‘ دیکھنے والوں کی اب باری آنے والی ہے لیکن میں داد دیتا ہوں آصف علی زرداری کو ’’ مردہ گڑھے‘‘ اکھاڑنے پر انہوں نے ایف آئی اے کو ٹکا سا جواب دے دیا ہے اور کہا ہے ’’جس نے گرفتار کرنا ہے لے جائے میں جیل جانے کو تیار ہوں ۔‘‘ وقتی طور پر ’’قیدی نواز شریف‘‘ کی ضمانت پر رہائی کا معاملہ پس منظر میں چلا گیا ہے ایک طرف’’ کپتان ‘‘ کو ’’معلق پارلیمنٹ ‘‘ کا قائد ایوان بنانے کے لئے قوتیں سرگرم عمل ہیں تحریک انصاف کی قیادت ’’ گیم نمبر‘‘ پوراہونے کا دعویٰ کررہی ہے لیکن تاحال جہانگیر ترین کا ہوائی جہاز آزاد ارکان کو بھر بھرلا رہا ہے دوسری طرف عام انتخابات میں ہونے والی انتخابی دھاندلیوں نے ایک دوسرے کے ’’خون کی پیاسی ‘‘ جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ایک میز پر لا بٹھا یا ہے جسے اپوزیشن کی جماعتوں نے ’’ اتحاد برائے شفاف انتخابات ‘‘ نام دے دیاہے بظاہر یہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف قائم کیا گیا’’ اتحاد‘‘ ہے لیکن پیپلز پارٹی مصلحتاً ’’گرینڈ اپوزیشن الائنس ‘‘کا نام دینے سے گریزاں ہے اور پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس کی اعلیٰ قیادت کومسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت سے مل بیٹھنے میں’’تحفظات‘‘ ہیں پیپلز پارٹی نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف بننے والے اتحاد میں بادلِ نخواستہ شمولیت تو اختیار کر لی ہے لیکن تاحال آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن کے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی ۔ آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں موجود ہونے کے باوجو شرکت نہیں کی ۔ انھوں نے دانستہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سے فاصلہ رکھنے کو ترجیح دی مسلم لیگ ن نے بھی پیپلز پارٹی کی’’ دیکھا دیکھی ‘‘اسمبلیوں میں حلف اٹھانے کے حق میں فیصلہ دے کر دراصل ’’ غیر جمہوری قوتوں ‘‘ کے آگے بڑھنے کا راستہ روک دیا ہے۔ اسمبلیوں کا حلف اٹھانے پر پیپلزپارٹی کو سندھ کی حکومت تو مل جائے گی لیکن تحریک انصاف کی’’ جمہوریت پسند ‘‘قیادت پنجاب کی اکثریتی پارٹی کی حکومت نہیں بننے دے رہی آزاد امیدواروں کی منڈی لگی ہے ’’معلق پارلیمنٹ‘‘ میں چوہے بلی کا کھیل کسی وقت بھی شروع ہو سکتا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے انتہائی متنازعہ انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی پارلیمنٹ میں عمران خان کو سات آٹھ جماعتوں کی’’ بیساکھیوں ‘‘کا’’ محتاج‘‘ بنا دیاگیا ہے ’’کپتان ‘‘کی 22سالہ وزیراعظم بننے کی خواہش پوری ہوتی نظر آرہی ہے تحریک انصاف وفاق اور پنجاب میں حکومت تو بنا لے گی لیکن اسے پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن سکون سے اقتدار’’ انجوائے‘‘ نہیں کرنے دے گی جن قوتوں نے عمران خان کو مسند اقتدار پر بٹھایا ہے وہ’’ نواز شریف‘‘ بننے کی کوشش کرنے پر مسند اقتدار کے نیچے سے’’ قالین‘‘ کھینچنے میں دیر نہیں لگاتیں۔

ای پیپر دی نیشن