امریکی صدر نے کشمیر پر ثالثی کی آفر کرکے پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں اور اس آفر کو وزیراعظم کے دورہ امریکہ کا حاصل قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ امریکی اقدام پر اس مسئلے کے ایک اہم فریق بلکہ فریق ثانی بھارت نے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے اور امریکی صدر کو کہنا پڑا کہ بھارتی وزیراعظم نے ان سے اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے کوشش کرنے کی درخواست کی تھی مگر بھارتی سیاست میں دبائو میں آ کر مودی جی کو اس بات سے مکرنا پڑا اور بھارت کی موجودہ حکومت کے مکرنے کے بعد اس ثالثی کی کیا حیثیت رہ جائے گی اس کا فیصلہ بھی آئندہ کی تاریخوں میں بلکہ تاریخ میں متوقع ہے۔
پاکستان تو شروع سے ہی کشمیریوں کی مادی امداد کے تحت اس بات کا شروع ہی سے مبلغ رہا ہے کہ کوئی غیر جانبدار ادارہ چاہے وہ یو این او ہو یا امریکی حکومت اس بات کا نوٹس لے اور ماضی میں عالمی سطح پر کی جانے والی بھارتی حکومتوں کی حق خودارادیت پر عالمی موقف کو منوانے کے لیے بھارت کو مجبور کرے مگر بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو سے لے کر اب تک تقریباً تمام وزراء اعظم نے عالمی سطح پر کشمیریوں کو ان کے جائز حقوق دینے کی بات کی ہے مگر یہ بات وہ مرضی اور مرضی کی اپنی تفہیم کرنے پر ضد لگائے بیٹھی ہیں۔لہٰذا ایک مضبوط غیر جانبدار ادارے کی جانب سے حق خودارادیت کی تشریح ضروری ہے جس کو تمام فریق قبول کر لیں۔ تو دیرینہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ جہاں تک پاکستان اور امریکی باہمی تعلقات کا مسئلہ ہے تو وہ ہمیشہ سے مفادات کے زیراثر رہے ہیں اور اس میںامریکہ کو بہرحال برتری حاصل رہی ہے کہ وہ دنیا بھر میں ایک بڑی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ نیٹو اور نیٹو کی ممبرشپ ہو یا افغان وار ان دونوں میں بالواسطہ طور پر امریکی مفادات کو برتری حاصل رہی ہے۔اب چونکہ امریکی صدر نے کہہ دیا ہے کہ وہ افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ان کو پاکستان کی امداد کی ضرورت ہے اور پاکستان فرنٹ لائن ملک ہونے کی حیثیت سے پہلے ہی امریکی مفادات کی نگہبانی کر رہا ہے بلکہ اس میں اپنا جانی اور مالی نقصان بھی برداشت کر رہا ہے۔ چنانچہ پاکستانی وزیراعظم کا یہ دورہ اس لحاظ سے کافی کامیاب ہے کہ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کی امن کے لیے کوششوں کو سراہاہے اور پہلی بار ڈومور کا مطالبہ نہیںکیا گیا بلکہ اس دوسرے کے بعد تو فوجی تکنیکی امداد کی بحالی اور دونوں ملکوں کے اہم لیڈروں کا ملاقاتیں جاری رکھنا اچھی خبریں ہیں۔ ان اچھی خبروں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاکہ مفادات کے پکڑے کو مساوی کرنے کا عمل بھی شروع ہو کر ختم نہ ہو جائے اور دونوں طرف سے کیے گئے وعدوں پر عمل کا دور جاری رہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی بہرحال ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ کو صحیح تناظر میں ہی آگے چلنا چاہیے۔اگرچہ امریکی انتخابات میں ان چیزوں کی بھی اپنی اہمیت ہے مگر پھر بھی اصل چیز مفادات کی جنگ ہے اور موجودہ پاکستانی حکومت نے تو واشگاف الفاظ میں تعلقات کے ضمن میں مفادات کو ہی اہم قرار دیا ہے اور اسی کو آئندہ تعلقات کی بنیاد بھی قرار دیا ہے۔یہ نہیں کہ ماضی کی طرح دونوں حکومتیں اچھے تعلقات کا ذکر کرتی رہی ہیں مگر عالمی امن کے حوالے سے پاکستان پر زیادہ دبائو رہا ہے بلکہ ایک بہادر جرنیل نے تو ایک امریکی وزیر خارجہ کے کہنے پر خود کو بلکہ پاکستان کو امریکی مفادات کے ماتحت رکھ کر خوب ڈالر کمائے اور آج بھی وہ امریکی حلیفوں کی طرف سے ڈالروں کی بارش کا کھل کر اعتراف کرتے ہیں۔افغان وار میں ہم نے پہلی بار امریکی وزیرخارجہ بززنسکی کو افغان مجاہدین کے گلے میں ہار ڈال کر انھیں ’’تاریخ کے مجاہدین‘‘ بننے کی نوید سنی۔ اور پھر ایک امریکی وزیرخارجہ نے افغان مجاہدین کو کرائے کے غنڈے اور عالمی دہشت گرد قرار دیا۔ اس طرح کے دوغلے نقطہ نظر کا خاتمہ اگر واقعی ہو گیا ہے تو پاکستان کے لیے بہت اچھی خبر ہے۔
پاک امریکی تعلقات۔مفادات کا کھیل
Aug 06, 2019