کشمیر کی پکار اور ہماری عملیت پسندی

جناب کس گمان میں ہیں آپ۔ آپ اس مودی کو خیرسگالی اور علاقائی امن کے لیے تعاون کے پیغامات بھجوا کر اس کے ساتھ امن و آشتی اور مسئلہ کشمیر آپسی بیٹھک میں حل کرنے کی توقع باندھ رہے ہیں جس نے کشمیر کے راستے سے پاکستان آنے والے دریائوں کا مکمل بھارت کی جانب رخ موڑ کر اس رعونت کا اظہار کیا کہ پاکستان کو پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم کر دیا جائے گا اور جس مودی سرکار نے آج اپنی خصلت کے عین مطابق بھارتی آئین میں موجود کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کی سازش بھی راجیہ سبھا میں آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو آئین سے نکالنے کا بل پیش کر کے پایۂ تکمیل کو پہنچا دی ہے۔ بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی کی سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک وڈیو اور مسلم امہ کی قیادتوں کے لیے جاری کئے گئے انکے پیغام نے تو ہندو انتہا پسند بھارتی ریاست کی کشمیریوں کے بارے میں انتہاء کو پہنچی بربریت کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ا س بزرگ کشمیری رہنما نے جس کی آنکھوں نے جدوجہد آزادیٔ کشمیر میں ظالم بھارتی فوجوں کی گولیوں سے چھلنی ہونے والے اپنے نہ جانے کتنے پیاروں کی لاشیں دیکھی ہوں گی اور نہ جانے خود کتنی لاشیں اٹھائی ہوں گی، مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکاری کی بے رحمانہ قتل عام کی نئی منصوبہ بندی سے آگاہ کرتے ہوئے کس تفکر اور درد مندی کے ساتھ مسلم امہ کی قیادتوں کو جھنجوڑا کہ اس قتل عام میں ہم سب شہید ہو جائیں گے تو کیا آپ یہ سب تماشہ محض دیکھتے ہی رہیں گے۔ یقیناً آپ کو اپنی اس غفلت اور مصلحت پر خدا کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا۔ پھر اسی بزرگ کشمیری لیڈر نے بھارتی فوج کی جانب سے محبوس ہونے کے بعد گزشتہ روز ا پنی نحیف آواز میں جوانوں جیسی گھن گرج پیدا کرتے ہوئے مودی سرکار کو آئینہ دکھایا کہ آج بھارت کی جمہوریت کا جنازہ اُٹھ گیا ہے۔ وہ ایک کمرے میں بند کئے جانے کے بعد باہر تعینات بھارتی فوجیوں کو دروازے کی دراز سے جھانک کر مخاطب ہو رہے تھے کہ آپ ہمیں باہر نکالیں، ہم کہیں اڑ کر نہیں چلے جائیں گے۔ ’’دروازہ کھول دو‘‘۔ ان کی آواز میں کتنا کرب تھا مگر بھارتی تسلط سے اپنی اور اپنی ارض وطن کی آزادی کے لیے ان کا عزم بدستور جوان تھا۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی ان کی اس ویڈیو نے جہاں کشمیریوں میں آزادی کی تڑپ مزید مضبوط کی وہیں دنیا کو ہٹ دھرم مودی سرکار کا مکروہ چہرہ بھی د کھا دیا۔ ان کے آزادیٔ کشمیر کے لیے موجزن اس بے پایاں جذبے کو مسلم امہ کی قیادتوں میں سے کتنوں نے دل سے محسوس کیا اور کشمیریوں کا عملاً ساتھ دینے کی کتنوں میں تڑپ پیدا ہوئی؟ اس سوال کا جواب سوائے بے حسی کے مظاہر کے اور کچھ نہیں مل پا رہا۔
اور کیا آپ نے کشمیری حریت قائد یٰسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کی غم و سوز میں ڈوبی ہوئی پکار سے بھی اپنے دل میں کچھ محسوس کیا ہے؟ گزشتہ کئی روز سے سوشل میڈیا پر خبریں گردش کر رہی تھیں کہ تہاڑ جیل میں بھارتی حکام کے ظلم و جبر کو اپنے نڈھال جسم پر مسلسل برداشت کرنے والے اس حریت لیڈر کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ہے۔ مشعال ملک بھی ان خبروں پر متفکر اور نڈھال ہو کر میڈیا کے سامنے آ گئیں، اپنے شوہر کی نازک حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے ا ن کی آنکھیں چھلک پڑیں ’’مجھے ان کے بارے میں ہرگز آگاہ نہیں کیا جا رہا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں، کس حالت میں ہیں اور ان کے بارے میں سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں میں کتنی صداقت ہے۔‘‘ انہوں نے روہانسے لہجے میں حکومت پاکستان اور پاکستان کی قومی سیاسی قیادتوں سے دردمندانہ اپیل کی کہ وہ ان کے شوہر کی رہائی کے لیے ان کا ساتھ دیں اور جو بھی ممکن ہے کردار ادا کریں۔ مشعال فی الواقع ایک جذبے والی بہادر خاتون ہے جس نے یہ جاننے کے باوجود کہ بھارت کی جابر فورسز یٰسین ملک کی زندگی کے درپے ہیں، ان سے شادی کی اور ان کی جدوجہد آزادی میں ان کے دم قدم رہیں۔ اپنی شادی سے اب تک انہوں نے پرسکون ازدواجی زندگی کی چند ساعتیں ہی دیکھی ہوں گی کہ شادی کے بعد یٰسین ملک آئے روز بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہتھے چڑھتے اور قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ اب گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے وہ تہاڑ جیل میں سزائے موت والے مجرموں کے لیے مخصوص کال کاٹھڑی میں مقید ہیں جہاں انہیں آئے روز تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ انہی حالات میں ان کے انتقال کی خبریں گرم ہوئیں تاہم آج ان کے وکیل نے ان سے ملاقات کے بعد ان خبروں کی تردید کر دی ہے مگر ان کی نازک حالت کی ضرور تصدیق کی ہے ، تو کیا مشعال ملک کی دہائی پر کان دھرنا‘ ان کے دل میں پڑنے والے گھائو پر پھاہے رکھنا اور یٰسین ملک کی رہائی کے لیے انسانی حقوق کے عالمی اداروں تک رسائی حاصل کرنا ہماری ذمہ داری نہیں۔ ہم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں ان کی دامے ، درمے ، سخنے مدد کرنے کے داعی تو رہتے ہیں مگر عملاً بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے اقوام متحدہ میں ووٹ بھی دے دیتے ہیں۔ جہاد کشمیر کے بے بدل قائد حافظ محمد سعید کو جیل میں ڈال کر ان کی تمام تنظیمیں کالعدم بھی قرار دے دیتے ہیں اور ان کے اداروں کے تمام اکائونٹس اور جائیدادیں بھی منجمد کر دیتے ہیں اور پھر مودی سے یہ توقع بھی باندھ لیتے ہیں کہ وہ امن و آشتی کے ساتھ مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔
ابھی دو روز قبل ہی آل پارٹیز حریت کانفرنس کے قائد میر واعظ عمر فاروق کشمیریوں کے ایک پرجوش اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان سے عہد لے رہے تھے کہ مودی سرکار نے بھارتی آئین میں موجود کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو ہم اس کا مقابلہ اور مزاحمت کریں گے۔ وہ اس کے لیے کشمیریوں کی 1931ء سے شروع ہونے والی جدوجہد کا حوالہ د ے رہے تھے اور باور کرا رہے تھے کہ کشمیر کے الگ تشخص میں کوئی نقب نہیں لگنے دیں گے۔ اور آج بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کشمیر کا الگ تشخص ختم کرنے والا بل راجیہ سبھا میں پیش کر دیا جس میں بھارتی آئین میں سے اس کی دفعات 370 ، اور 35 اے کو ختم کرنے کا راجیہ سبھا سے تقاضہ کیا گیا ہے۔ امیت شاہ نے اس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ وادی کے بڑے حصے لداخ کو کشمیر سے کاٹ کر عملاً بھارت کا حصہ بنانے کا بھی اعلان کر دیا جس کی بنیاد پر اب مودی سرکار کو مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی آسانی حاصل ہو جائے گی اور پھر تقسیم ہند کے فارمولے کا ڈھنڈورا پیٹ کر باور کرایا جائے گا ہندو اکثریت کی بنیاد پر کشمیر کا بھارت سے الحاق ہو چکا ہے۔ اس غتربود حکمت عملی میں مودی سرکار نے پاکستان سے منسلک آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر بھی اپنی بدنظریں گاڑ رکھی ہیں اور داعی ہے کہ ہم نے کشمیر کے اس حصے کو پاکستان سے آزاد کرانا ہے۔ کنٹرول لائین پر اسی نیت سے تو مودی سرکار کے پہلے د ن سے آج تک وحشت و بربریت کا بازار گرم رکھا گیا ہے اور اب اس کی جانب سے کنٹرول لائن سے ملحقہ شہری آبادیوں پر کلسٹر بم چلانے کی نوبت بھی آ گئی ہے جس کے بارے میں جنگی دفاعی ماہرین کے بیان کردہ یہ حقائق بھی سامنے آ گئے ہیں کہ یہ بم بارودی سرنگوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے جو اپنے ٹارگٹ پر کھلونوں کی شکل میں بکھر جاتا ہے اور پھٹنے کے بعد بلیڈ کی طرح ہزاروں ٹکڑوں میں پھیل جاتا ہے جو بھاری جانی نقصان اور تباہ کاریوں کا باعث بنتا ہے۔
اگر بھارت نے کلسٹر بم چلانے کا اقدام وزیر اعظم عمران خاں کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ان سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کے بعد اٹھایا ہے جس کے جواب میں ٹرمپ ثالثی کی پیش کش کا اعادہ بھی کر چکے ہیں تو ہمیں بخوبی سمجھ لینا چاہئے کہ مودی سرکار کشمیر کو پلیٹ میں رکھ کر ہمارے حوالے کرنے والی نہیں بلکہ وہ کشمیر کی خاطر سب کچھ تہس نہس کرنے کی جنونیت والا راستہ اختیار کر چکی ہے۔ کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کی خاطر ہی تو بھارت کی ہر سرکار کشمیریوں پر ظلم و جبر بڑھاتی رہی ہے جبکہ مودی سرکار نے اپنے انتہا پسندانہ ایجنڈے کے تحت کشمیریوں کو ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ ان پر اسرائیلی ساختہ پیلٹ گنوں سے شیلنگ کرائی، اپنی کٹھ پتلی محبوبہ مفتی کی حکومت کو بھی برداشت نہیں کیا اور مقبوضہ کو پہلے گورنر راج اور پھر صدر راج کے حوالے کیا اور پھر کشمیریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے کشمیریوں کا عزم پھر بھی کمزور نہ ہوا تو مودی سرکار نے ان کے کھلم کھلا قتل عام کی منصوبہ بندی کر لی جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں پہلے سے موجود سات لاکھ بھارتی فوجوں اور پیرا ملٹری فورسز کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے مزید ایک لاکھ 80 ہزار بھارتی فوجی کشمیر میں داخل کر دئیے گئے ہیں جنہوں نے وحشیانہ اور ننگ انسانیت کارروائیوں کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ کشمیریوں کے قتل عام کی اس منصوبہ بندی کے تحت ہی تمام غیر کشمیریوں، غیر ملکی باشندوں اور امرناتھ ہندو یاتریوں کو ہنگامی بنیادوں مقبوضہ کشمیر سے نکالا جا رہا ہے تاکہ صرف کشمیری مسلمان ہی ان کے ہدف پر رہیں۔ تو کیا اس بھارتی ہٹ دھرمی کو اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ہم مودی سرکار سے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کرتے اور امن و آشتی کی توقع باندھتے رہیں ، نہیں جناب! ہمیں اب قومی غیرت و سلامتی کے تقاضوں کے عین مطابق جیسے کو تیسا والی حکمت عملی طے کرنا ہو گی، زبانی جمع خرچ سے باہر نکلنا ہو گا۔ پاک فوج کے ترجمان آصف غفور صاحب نے بے شک ہمارے قومی جذبات کی یہ کہہ کر درست ترجمانی کی ہے کہ کشمیر ہماری رگوں میں دوڑتا ہے۔ بے شک وزیر اعظم عمران خاں نے بھی بھارت کی جانب سے کلسٹر بموں کے استعمال پر سلامتی کونسل سے نوٹس لینے کا تقاضہ کیا ہے مگر محض بیان بازی سے بھارتی رعونت نہیں ٹوٹنے والی ۔ ہمیں اب ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالنے کی حکمت عملی ہی طے کرنا ہو گی، یہی کشمیریوں کا ہم سے تقاضہ اور کشمیر کی پکار ہے، ورنہ کشمیر بنے گا پاکستان کا خواب تو شائد ہی اپنی تعبیر سے ہمکنار ہو پائے، ہماری اپنی سلامتی بھی مودی سرکار کے جنگی جنون کی بھینٹ چڑھ جائیگی۔ ہم زندہ قوم ہیں تو ہمیں شاطر ہندو بنیا کی پتلون ڈھیلی اور دھوتی گیلی کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے، ورنہ ا س ارض وطن پر کچھ بھی نہیں بچے گا۔

ای پیپر دی نیشن