ایک سو پچھترویں سالگرہ؟

ڈاکٹر صغرا صدف سے فون پر بات ہوئی اس نے کہا امجد اسلام امجد کی سالگرہ میں جا رہی ہوں۔ میں نے کہا کہ مجھے بھی لے چلو۔ وہ بہت مہربان ہے۔ دوستوں کی عزت کرنا اس کی فطرت ہے۔ وہ تو دوسروں کی بھی عزت کرتی ہے۔ اس نے اپنا پنجابی انسٹی ٹیوٹ سب کا گھر بنا دیا ہے۔ میں اسے ایک ادبی مرکز کی حیثیت دیتا ہوں۔ میں نے اسے اردو بولتے ہوئے کم کم سنا ہے۔ وہ پنجابی زبان کو پاکستانی زبان بلکہ ایک قومی زبان سمجھتی ہے۔ وہ پنجابی بولتی ہے اور پکی پاکستانی لگتی ہے۔ سب کی عزت کرتی ہے اور سب اس کی عزت کرتے ہیں۔
ہم امجد اسلام امجد اس کے عزیزوں اور دوستوں کے پاس ڈیفنس کے علاقے میں پہنچے۔ مجھے ڈیفنس میں رہنے والے اپنا ڈیفنس کرتے ہوئے لگتے ہیں۔ ڈیفینسوبھی بہت ہیں خواتین و حضرات ۔ حضرات تو اتنے نہیں مگر خواتین۔؟
خواتین یہاں بھی امجد کی شاندار سالگرہ کی تقریب میں بھی بہت تھیں اور ڈیفنسیو نہیں تھیں۔ کچھ مرد حضرات اور جوان لوگ بھی خواتین کی طرح معاملات چلا رہے تھے۔ خاص طور پر جو کمپیئر صاحب تھے سمارٹ تھے اور سمارٹ ہونے اورنظر آنے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔ وہ بے تکلف ہونے کی بھی کوشش فرما رہے تھے اوریا مقبول جان کو امجد اسلام امجد کے لیے کچھ کہنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے شکر ہے انہیں میری جان نہیں کہہ دیا۔ عمر عادل نے بے تکلفی میں بات کی۔ ایک جملے سے پہلے کہا کہ خواتین اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں مگر وہ جملہ شاید عمر عادل بھول گئے کہ کسی خاتون نے اپنے کان میں انگلی نہیں دی تھی۔
اس ضمن میں سہیل احمد نے اچھی بات کی۔ یحییٰ خان اور بھی کچھ لوگ۔ انور مسعود نے بہت دلچسپ گفتگو کی۔ صرف مجیب الرحمن شامی ہی اس شاندار بات چیت کے بعد ماحول کو سنبھال سکتے تھے۔ وہ بولے اور خوب بولے۔
ایک ہی خاتون نے گفتگو کی۔ وہ غالباً امجد اسلام امجد کی اہلیہ ہماری بھابھی فردوس صاحبہ تھیں۔ وہ شاید پہلی اور آخری بار بولیں۔ اتنی اچھی ا ور دلیرانہ گفتگو کی کہ جب کمپیئر نے ان سے مائیک لے لیا تو ہمیں بڑا غصہ آیا۔ کئی اووروں کو بھی آیا ہو گا۔ ہم اپنے غصے پر قابو پا لیتے مگر ہمیں دیر بعد پتہ چلا کہ وہ امجد اسلام امجد کا اکلوتا بیٹا ہے۔ ہم نے اسے لڑکپن میں دیکھا ہے۔ وہ بہت بدل گیا ہے یا اسے بدلا گیا ہے۔ ہمیں اس کا انداز اچھا لگا۔ اس نے مختلف طرح سے کمپیئرنگ کی۔
میرے ساتھ بابا یحییٰ خان بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ خواتین و حضرات کی عقیدت کے مناظر دیکھتا رہا۔ وہ بڑی روحانی شخصیت ہیں۔ ہر کسی کے ساتھ عاجزی سے پیش آنا ایک اعزاز ہے جو سب کے لیے ہے ۔ میرے ساتھ ان کا بہت پرانا تعلق ہے جسے وہ ہر ملاقات میں تازہ کر دیتے ہیں۔ بڑی دیر بعد ایک دوسری روحانی شخصیت سرفراز صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ امجد کی سالگرہ کئی پیغام ہمارے لیے لائی تھی۔
تقریب اچھی تھی مگر یہ پچھترویں سالگرہ منانے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ آخر ایک سو پچھترویں سالگرہ بھی تو آنے والی ہے۔ مجھے اس تقریب کا بے تکلفانہ انداز اچھا لگا۔ برادرم عمر عادل نے بھی اس طرف اشارہ کیا۔ اشارے تو اس نے اور بھی کئی کئے۔ نجانے کسی نے سمجھا کہ نہیں کمپیئرنگ کرنے والے نے بھی چلتے پھرتے بہت انوکھی کمپیئرنگ کی۔ یہ ایک بڑی تقریب تھی مگر گھریلو تقریب بن گئی۔ وہاں میں نے سنا کہ یہاں زیادہ تر لوگ اور خاص طور پر خواتین آپس میں رشتہ دار تھیں۔ امجد کی نہ سہی فردوس بہن کی تو ہونگی۔
یہاں بشریٰ اعجاز ملیں۔ رخشندہ نوید بھی ملیں۔ خاص طور پر ناز بٹ کے ساتھ بھی بڑے دنوں کے بعد ملاقات ہوئی۔ سلمان بیٹا یہاں بھی اس کے ساتھ ساتھ تھا۔ ایک شائستگی ان ملنے والیوں میں تھی۔ اس مہربانی کے لیے شکر گزار ہوں۔
میرے خیال میں یہ 2019ء کی سب سے خوبصورت‘ بھرپور اور بھری بھری تقریب تھی۔ خواتین و حضرات بہت خوش خوش تھے خواتین زیادہ تھیں اور زیادہ خوش تھیں۔ حضرات بھی کم نہ تھے۔ زیادہ تر امجد اسلام امجد کے ہم عمر تھے؟ امجدکے لئے باتیں کم دوستوں نے کیں بلکہ دوستوں سے کرائی گئیں۔ کچھ لوگ تھے کہ انہوں نے پوچھا نجانے کس سے پوچھا۔شائدکمپیئر صاحب سے پوچھا ہوگا کہ میں کیا بات کروں۔ ان کا سوال بالکل ٹھیک تھا کہ میں کیا بات کروں۔ وہ کوئی بات نہ کرتے تو اچھا ہوتا۔ وہ خود اچھے رہتے۔ اتنی زیادہ خواتین میں سے کسی سے بھی بات نہ کرائی گئی۔ کیا کمپیئر صاحب کا خیال ہے کہ کوئی خاتون اس قابل نہیں کہ اس سے بات کرائی جا سکے۔
اس زمانے میں کوئی تو شاعر ہوتا ہے جس کا نام لیا جاتا ہے۔ فیض تھے۔ احمد ندیم قاسمی اور منیر نیازی‘ اسے میں اپنے قبیلے کا سردار کہتا ہوں۔ اب بڑی آسانی سے امجد اسلام امجد کا نام لیا جا سکتا۔
یہ ہمارا اعزاز ہے کہ وہ آجکل ہمارے درمیان ہے۔ اس کے بارے میں شاندار گفتگو کی گئی۔ بلاشبہ وہ ایسا شاعر ہے جو عالمی سطح پر معروف ہے۔ غزل کے شاعر کی حیثیت سے عام طور پر لوگ مشہور ہوتے ہیں۔ مگر امجد نے اپنی شاندار اور پسندیدہ نظموں کے حوالے سے اپنا مقام بنایا۔ اس محفل میں اس سے کوئی نظم سنی جاتی۔ پھر مجھے کمپیئر صاحب کا خیال آتا ہے۔ ان سے فرمائش کرنے کا بھی خیال نہیں آیا۔ شاید امجد نے اس محفل میں نظم سنانے کی فارمیلٹی کو قبول نہ کیا ہوگا۔
مگر امجد اس حوالے سے دوستوں کے اصرارکو اعزاز دینے کا قائل ہے۔ وہ کوئی تکلف نہیں کرتا‘ یہ مبالغہ ہے مگر اس میں میری خواہش چھپی ہوئی ہے کہ اس کی ایک سو پچھترویں سالگرہ بھی منائیں۔ اپنی طویل عمری کی نہ پوری ہونے والی خواہش بھی زندہ ہے۔ اﷲ امجد کو طویل عمر عطا کرے اور ہمیں بھی کہ ہم اس کی ایسی کئی اور بھی سالگرہیں منا سکیں۔

ای پیپر دی نیشن