ہندو مسلمان بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیتے: محمد صدیق

ملتان(سماجی رپورٹر) پاکستان کے دریا گواہی دیتے ہیں کہ ان میں آزادی چاہنے والوں کا خون شامل ہے وہ درخت گواہی دیتے ہیں جن میں لٹے پٹے قاتلوں نے پناہ لی تھی ان خیالات کا اظہار ضلع حصار کے گاؤں برہمن والا کے محمد صدیق نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا اس وقت میری عمر 10 سال تھی میں بکریوں کا ریوڑ چرایا کرتا اور میرے والد کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے ہم روزمرہ کے اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ فسادات پھوٹ پڑے ہمارے بزرگوں کی طرح دیگر مسلمان اب ظلم بربریت برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے تھے اور آزادی کے خواہاں تھے جبکہ ہندوؤں کو آزادی کے نام سے چڑ تھی جہاں بھی انہیں مسلمان کا بچہ نظر آتا گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیتے۔ مسلمان کب برداشت کرنے والے تھے جواب میں مسلمان بھی ہندوؤں کو مار دیتے اس طرح فسادات اس قدر پھوٹ پڑے ایک بار تو ہندو گروہ نے گنڈا سے اور ٹوکے ہاتھوں میں لئے نہتے جنازہ پڑھتے‘ مسلمانوں پر حملہ کر کے بیوؤں کو شہید کردیا۔ یہاں تک فسادات کی آگ ہمارے گاؤں برہمن والا تک پہنچ گئی رات کی تاریکی میں ہمارے گاؤں پر حملہ کردیا گیا تو ہمارے دادا اور تایا نے ایک ایک مرچوں پر مشتمل لفافہ سب کو تھما دیا جو بھی حملہ آور ہمارے قافلہ پر حملہ کرتا مرچیں اس کی آنکھوں میں پھینک دیتے اور ہندو ڈر کے مارے بھاگ جاتے۔ 50 افراد پر مشتمل قافلہ نے پیدل دریائے جمنا تک سفر کوئی 4 گھنٹوں میں طے کیا بھوک اور پیاس سے بچے بلک رہے تھے اوپر سے طوفانی بارش نے رہی سہی کسر پوری کردی بڑی مشکل سے دریائے جمنا پار کیا۔ اس دوران 1 خواتین اپنی آنکھوں سے دریائے جمنا کی لہروں کے سپرد ہوتے دیکھیں۔7 دن کے قیام کے بعد حیدر آباد دکن کے نواب نے بسیں بھیجیں جن پر سوار ہوئے ہی تھے کہ ہمیں ایک بار ان سے اتار لیا گیا۔ واپس دوبارہ آ گئے کچھ دن کیمپ میں رہنے کے بعد سونی پت ریلوے اسٹیشن پر پہنچے۔ جہاں پر مال گاڑی پر سوار ہو گئے۔ خدا خدا کر کے واہگہ بارڈر پہنچے جہاں سے ملتان اور پھر شور کوٹ کچھ دن قیام کے بعد ملتان کے نزدیک ٹاٹے پور میں مقیم ہو گئے۔ ٹاٹے پور میں موجود مقامی لوگوں نے ہمارے خاندان کے علاوہ دیگر قافلہ کے لوگوں کی خوب مہمان نوازی کی ‘ ہم نے جس کلمہ کی بنیاد پر آزادی حاصل کی تھی آج ہمیں ایک ہونے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...