اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) خصوصی آرٹیکل ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا، جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل تھا۔ اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیاتی، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر جموں و کشمیر میں بھارتی قوانین کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا تھا۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 'اے' آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا تھا۔اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا تھا۔آرٹیکل 35 'اے' کے تحت غیر کشمیری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی تھیں، جبکہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔آئین کے آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی۔جموں و کشمیر کے شہریوں کے پاس دوہری شہریت ہوتی تھی۔جموں و کشمیر کی کوئی خاتون اگر ہندوستان کی کسی دوسری ریاست کے شہری سے شادی کر لے، تو اس خاتون کی جموں وکشمیر کی شہریت ختم ہو جاتی تھی۔اگر کوئی کشمیری خاتون پاکستان کے کسی شخص سے شادی کرتی ہے تو اس کے شوہر کو بھی جموں و کشمیر کی شہریت مل جاتی تھی۔آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کے حوالے سے کسی قسم کی قانون سازی کے لیے ریاست کی منظوری لینا پڑتی تھی۔آرٹیکل 370 کی وجہ سے کشمیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو بھی ہندوستانی شہریت مل جاتی تھی۔ جموں و کشمیر میں ہندوستان کے ترنگے یا قومی علامتوں کی بے حرمتی جرم نہیں تھی اور یہاں ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت کا حکم قابل عمل نہیں ہوتا تھا۔جموں و کشمیر کا جھنڈا الگ ہوتا تھا۔جموں و کشمیر میں باہر کے لوگ زمین نہیں خرید سکتے تھے۔کشمیر میں اقلیتی ہندووں اور سکھوں کو 16 فیصدریزرویشن نہیں ملتا تھا۔آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں و کشمیر میں آر ٹی آئی(رائٹ ٹو انفارمیشن) نافذ نہیں ہوتا تھا۔جموں و کشمیر میں خواتین کے حوالے سے شرعی قانون نافذ تھا جبکہ پنچایت کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔جموں و کشمیر کی اسمبلی کی مدت 6سال ہوتی تھی جبکہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی اسمبلیوں کی مدت 5سال ہوتی ہے۔