کشمیر پر بھارتی وزیر داخلہ کی سرجیکل اسٹرائیک

بھارت نے کشمیر ہڑپ کر لیا۔ اس ظالمانہ اقدام کے فوری بعد ہمارے وزیر اعظم نے پاکستان میں اربوں درخت لگانے کا بڑا اعلان کیا ہے ۔ مگردیکھنا یہ ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ کی کشمیر پر سرجیکل اسٹرائیک کے جواب میں ہمارے وزیر داخلہ کیا اقدام کریں گے۔
امیت شا بھارت کے وزیر داخلہ ہیں۔ وہ وزیر دفاع نہیں۔ بھارتی افواج کے سربراہ بھی نہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم بھی نہیں۔ مگر کشمیرپر سرجیکل اسٹرائیک کی تو بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے کی۔
امت شا کو جب وزیر داخلہ بنایا جا رہا تھا تو ہر شخص کہہ رہا تھا کہ انہیں کشمیر پر سرجیکل اسٹرائیک کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ پچھلے چند دنوں میں امیت شا نے کشمیر میں کئی سخت اقدامات کئے۔ حریت کانفرنس کی قیادت تو ایک عرصے سے نظر بند تھی، اتوار اور پیر کی نصف شب اس نے عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور سجاد لون کو بھی نظر بند کر دیا ہے، وادی میں کرفیو نافذ ہے۔ انٹرنیٹ بند،۔ موبائل فون بند۔لینڈ لائن بند۔ کالج اور اسکول بند اور سب سے بڑھ کر امر ناتھ یاترا بھی بند۔ سری نگر سے غیر ملکیوںاور سیاحوں کی مکمل واپسی۔ سری نگر اور دہلی کے ہوائی سفر کے اخراجات کو چودہ ہزار سے کم کر کے چھ ہزار تک لانے کاا علان تاکہ ہر شخص وادی سے فوری طور پر نکل سکے۔ بھارت کے ممکنہ اقدام پر رد عمل سے بچنے کے لئے مزید تیس ہزار تازہ دم بھارتی فوج وادی میں داخل۔
بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے شو رو غل اور ہنگامے کے باوجود تین بل پیش کیئے۔ ایک صدارتی حکم کے تحت بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ہو گیاا ور اب وہ بھارت کاایک انتظامی یونٹ ہے۔ دوسرے صدارتی حکم کے تحت بھارتی آئین کے آرٹیکل پینتیس اے کا خاتمہ عمل میں آ گیا۔ اب کوئی بھی شخص کشمیر میں جائیداد خرید سکتا ہے۔ یہ پابندی مہاراجہ ہری سنگھ نے انیس سو چوبیس میں عائد کی تھی تاکہ کشمیر کے باہر کے لوگ وادی کے باسیوں کے روز گار پر ڈاکہ نہ ڈال سکیں۔ تیسرے صدارتی حکم کے تحت کشمیر کی نئی حد بندی کی گئی ہے اورلداخ کو کشمیر سے الگ کر کے بھارت کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔
بھارت نے یہ سب کچھ بی جے پی کے منشور کی تکمیل کے سلسلے میں کیا ہے۔مگر اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ ایک طرف تو بھارت پورے کشمیر بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپناا ٹوٹ انگ کہتا تھا، تو کیا اب بھارت اس دعوے سے دست بردار ہو گیا ہے۔ یا وہ ان علاقوں کو بھی ہڑپ کرنے کی کوششیں تیز کر دے گا۔یہ بھی سوال ا ٹھتا ہے کہ کیا اب پاکستان آزاد کشمیر گلگت بلتستان کو اپنی حدود میں ضم کرنے کا اعلان کر سکتا ہے۔ اتوار کے روز پاکستان میں بھی اعلی سطحی اجلاس ہوا جس میں وزیر اعظم کی صدارت میں فوجی قیادت نے شرکت کی اور اعلان کیا گیا کہ بھارت کی ممکنہ جارحیت کا بھر پور جواب دیا جائے گا مگر یہ جو بھارت نے جارحیت کر ڈالی ہے۔ اس کا جواب کس شکل میں دیا جائے گا۔ یہ بھی سوال ہے کہ کیا بھارتی اقدامات سے کشمیر پر اقوام متحدہ کی تمام قراردادیں ختم اور بے اثر ہو گئی ہیں اور یہ جو بھارت کہا کرتا تھا کہ کشمیر کامسئلہ اعلان لاہور اور شملہ سمجھوتے کی رو سے دو طرفہ مذاکرات سے حل کیا جائے گا۔بڑا سوال یہ ہے کہ بھارت کے اس اقدام کے بعدا مریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش کی کوئی گنجائش باقی رہ گئی ہے؟ ویسے تو اتوار کے روز وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکی صدر ثالث کا کردار ادا کریں۔ اورا س سے پہلے صدر ٹرمپ نے اپنی اس پیش کش کا اعادہ بھی کیا تھا۔ یہ پیش کش انہوںنے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران کی تھی جس پر بھارت سخت سیخ پا ہوا تھا اور نریندر مودی کے خلاف ایک ہنگامہ برپا تھا کہ وہ کون ہوتے ہیں امریکہ کو ثالث بنانے والے۔ اس واویلے کے جواب میں مودی صاحب بالکل خاموش رہے اور بالا ٓخر راز یہ کھلا کہ وہ کسی کی ثالثی نہیں چاہتے بلکہ از خود کشمیر کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔
بھارت جو ا نتہائی اقدام کر سکتا تھا، وہ ا س نے کر ڈ الا۔ اب دنیاکو عالم ا سلام اور پاکستان کے رد عمل کا انتظار ہے۔ اور یہ بھی انتظار ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کے کشمیری کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ کشمیری اس اقدام کو مسترد کریں گے اور اس کے خلاف مزاحمت تیز کر دیں گے، مزاحمت کی تحریک میںاب وہ جماعتیں بھی شریک ہو جائیں گی جو ماضی قریب تک بھارتی موقف کی حمایت کرتی تھیں۔ مگر اب ان کی رائے کو بھی بلڈوز کر دیا گیا ہے۔ کشمیر میں تحریک مزاحمت تیز تر ہونے سے بھارت اپنا گھسا پٹا الزام دہراتا رہے گا کہ گھس بیٹھیوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے اور یوں پاک بھارت تعلقات میں خرابی پیدا ہوگی جو پہلے ہی سنگین صورت اختیار کر چکی ہے۔ فاروق عبداللہ کے گھر پر محبوبہ مفتی،سجاد لون کی میٹنگ کے بعد ان قائدین نے کشمیریوںکو پر امن رہنے کی اپیل کی ہے اور بھارت اور پاکستان سے بھی کہا ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس سے برصغیر کی سیکورٹی حالت بگڑ جائے ۔ اس سے دونوںملکوں کو نقصان پہنچے گا۔ اس اعلان کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اپنی طرف سے کوئی اقدام نہ کرے اور یوں مسئلہ کشمیر دب جائے۔خود کشمیری بھی پر امن رہیں گے تو بھارت کو اور کیا چاہئے۔ وہ تو سنگینوں کی نوک پر بھی امن قائم کرنے کے حق میں ہے۔
پاکستان کے سامنے کیا چوائسز ہیں، ایک تو یہ کہ وہ سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست کرے۔ دوسرے اسلامی کانفرنس کااجلاس بلائے۔ تیسرا پاکستانی عوام بھی کشمیریوںکے ساتھ کھڑے ہوں مگر حافظ سعید،مسعود اظہر، آصف زرداری اور نواز شریف کو قید میں رکھا گیا تو پاکستانی عوام کو متحرک کون کرے گا۔ کیا اکیلی پی ٹی آئی یہ کام کر سکے گی۔ اگر کر لے تو اس کی تعریف کی جائے گی۔
پاک آرمی کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف نے اپنے دور میں کہا تھا کہ بھارت کے جواب میں ہم کولد اسٹارٹ اور ہاٹ اسٹارٹ دونوں کے لئے تیار ہیں۔ اب وہ عرب ممالک کی ایک ایسی فوج کے سربراہ ہیں جو خطے سے دہشت گردوں سے نبٹے گی۔ مگر کیا یہ عرب افواج کشمیریوں پر بھارتی وار کو بھی دہشت گردی سمجھ کر متحرک ہو گی۔ اس کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کو ثالثی کی پیش کش یاد رہتی ہے یا نہیں اور چین، روس اورا ٓزاد دنیا کے رد عمل کا بھی انتظار کرنا ہو گا جو انسانی حقوق کے چیمپیئن بنتے نہیں تھکتے۔
ایک رائے یہ ہے بھارت نے جو ترپ کا پتہ کھیلا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ یہ سودے بازی کرنا چاہتا ہے کہ اگر کشمیر کے مسئلے میں امریکہ ثالثی کرنا چاہتا ہے تو افغان امن مذاکرات میں بھارت کو بھی شامل کیا جائے مگر تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ افغان مسئلہ افغان عوام ہی حل کر سکتے ہیں تو کشمیر کا مسئلہ بھی کشمیریوں کو حل کر نے کا نے حق ملنا چاہئے۔
دیکھنے کو ریاست پاکستان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے،۔دنیا نے فلسطین میں یہودیوں کے مظالم پر بے حسی اور بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا تھا جس کا فائدہ اسرائیل کو ہوا اس نے فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ اب ایسا ہی قتل عام بھارتی افواج کشمیریوں کا کریں گی۔ بہتر سال سے کشمیر میں خون بہہ رہا ہے اور بھارت کشمیریوں کے جسد قومی سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنے پر تلا ہوا ہے۔
حکومت پاکستان اتنا تو بتا دے کہ اب کشمیر کی کنٹرول لائن کی حیثیت کیا رہ گئی ہے۔ کیا یہ بین الاقوامی سرحد بنا دی گئی ہے یا بھارت اب بھی توپوں اورکلسٹر بموں سے کنٹرول لائن کے پار کشمیریوں اور ورکنگ بائونڈری کے پار پاکستانیوں کا خون ناحق کرتا رہے گا۔
کہا جاتا تھا کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی طاقت ہیں ا س لئے بھارت ایسا کوئی تنازعہ کھڑا نہیں کر سکتا جو ایٹمی جنگ کی وجہ بن جائے۔ مگر بھارت نے ظاہر یہ کیاہے کہ اسے پاکستان کی ایٹمی طاقت سے کوئی خوف و خطر نہیں۔
مگر مجھے اپنے ملک کے وزیر اعظم عمران خاں کا وہ اعلان یاد ہے کہ ہمارا ہیرو سلطان ٹیپو ہے جس کا کہنا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ اسی وزیر اعظم کے دور میں ستائیس اورا ٹھائیس فروی کی شب بر صغیر میں ایٹمی تصادم کی صورت پیدا ہو گئی تھی۔اس لئے میں ایٹمی جنگ کے امکان کو رد نہیں کرتا۔ ایسا ہوا تو ا س کالم نگار کی اپنے قارئین سے اگلی ملاقات روز حشر کو ہو گی۔
ویسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نے یہ سبق دیا ہے کہ آئین میں ترمیم کے لئے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کی ضرورت نہیں بلکہ ایک صداراتی حکم سے بھی آئین کو تہس نہس کیا جاسکتا ہے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن