اسلام آبا د سے شروع ہونے والی کشمیر ہائی وے کا نام بدل دیاگیا ہے۔ اب سر ی نگر اور لداخ کا فاصلہ گوگل سے دیکھے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ سری نگر ہائی وے پر ہر سنگ میل سے پتہ چل سکتا ہے کہ سری نگر اور لداخ تک کتنا فاصلہ ہے۔ ایک نقشے نے تایخ اور جغرافئے کے فاصلے مٹا د یئے ہیں۔
کشمیریوں نے اپنے خون سے ایک کہکشاں روشن کی جس کی تابناکی میں ہمیں پاکستان کی اصل سرحدوں کا سراغ مل گیا۔ وزیر اعظم پاکستان نے ایک بڑا انشی ایٹو لیا اور وزارت خارجہ میں وسیع تر قومی مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ پاکستان کا ایک نیا نقشہ جاری کیا جائے ، جس میں کشمیر لداخ،،گلگت بلتستان اور فاٹا کو پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں میں ظاہر کیا گیا ہے، دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد استعماری طاقتوں نے اپنی مرضی سے زمین پر لکیریں کھینچیں اور مختلف ملک کھڑے کر دیے، سید افضل حیدر کہتے ہیں کہ پاکستان چودہ اگست انیس سو سنتالیس میں وجود میں آیا تو اس کے جغرافئے کا تعین نہیں کیا گیا تھا، تین روز بعد ایک بوگس اعلان ہوا اس سے مشرقی پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے بھارت کو دے دیے گئے اور یوں بھارت کو موقع دیا گیا کہ وہ گورداسپور کے راستے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کرکے اس پر قبضہ جما لے ، اس عظیم دھوکے کی پوری کہانی سید افضل حیدر نے تفصیل سے تاریخ کا عظیم ترین فراڈ کے نام سے اپنی زیر طبع کتاب میں بیان کی ہے۔
پاکستان نے کشمیر اور کشمیریوں کو کبھی پس پشت نہیں ڈالا ، پاکستان نے کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کو ختم کرانے کے لیے ایک بڑی کامیاب یلغار کی، جس میں ہمارے مجاہدین ، سری نگر ایئر پورٹ کے رن وے تک جا پہنچے تھے ۔ اس پر بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سٹپٹا اٹھا اور بھاگم بھاگ نیو یارک جا کر سلامتی کونسل سے سیز فائر کی بھیک مانگی۔ پنڈت نہرو نے اس قرارداد کو تسلیم کیا کہ کشمیر کی حیثیت کا مستقل فیصلہ کشمیری عوام خود کریں گے اور اس کے لیے یو این او کی نگرانی میں آزادنہ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ استصواب منعقد ہوگا ، بھارت نے اس قرار داد پر آج تک عمل نہیں کیا ۔
پاکستان نے اگست پینسٹھ میں آپریشن جبرالٹر کے ذریعے ایک کوشش اور کی کہ بھارت کے چنگل سے کشمیر کو چھڑا لیا جائے ، بھارت نے انیس سو چوراسی میں چوروں کی طرح سیاچین پر قبضہ جمایا، پاکستان کی مسلح افواج اس بلند ترین اور یخ بستہ میدان جنگ میں سیسہ ملائی دیوار بن گئی اور بھارت کی یہ مذموم خواہش خاک میں ملادی کہ وہ آگے بڑھ کر شاہراہ ریشم پر قبضہ کر سکے ۔
دیوار برلن ٹوٹی ، مشری یورپ میں تبدیلی کی تیز رفتار ہوائیں چلیں، سوویت روس کے حصے بخرے ہوگئے تو کشمیری بھی اپنے حقوق کے لیے اٹھے اور زور بازو سے بھارت کے خلاف تحریک حریت کا آغاز کیا ، کشمیر کی اس آزادی کی تحریک میں اب تک ایک لاکھ نو جوان شہید ہو چکے ہیں، سری نگر کے قبرستان میں ان کی قبروں کے سرہانے ان کے نام اور پتے درج ہیں ، سید علی گیلانی سے لے کر یاسین ملک تک اور میر واعظ سے لے کے برہان مظفر وانی تک ، جذبوں کی نئی تاریخ جگمگا رہی ہے ۔ پاکستان نے اس تحریک حریت کا دل و جان سے ساتھ دیا اور اخلاقی سفارتی اور سیاسی محاظ پر ان کی بھرپور ہمایت کی اور کے حق میں ایک توانا آواز اٹھائی ، بھارت کی مکاری کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا وہ ہر قسم کے جبر و ستم کے باوجود کشمیریوں کو زیر نہ کرسکا تو اس نے گزشتہ برس پانچ اگست کو انتہائی عیاری سے کشمیر کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی ، اور اپنے آئین سے آرٹیکل تین سو ستر کو حذف کردیا جو کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے ، بھارتی آئین میں صرف کشمیر ہی کو خصوصی حیثیت نہیں دی گئی تھی بلکہ آرٹیکل تین سواکہتر کے تحت ایک درجن مزید ریاستوں کو بھی یہی خصوصی حیثیت حاصل ہے ۔کشمیر کے سلسلے میں جابرانہ اقدام سے بھارت نے آرٹیکل تین سو ستر کو ختم کرکے باقی یاستوں کو بھی یہ پیغام دیا کہ ان کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل تین سو اکہتر بھی ختم کیا جاسکتا ہے جس سے وہ بھارت کی باجگزار بن کر رہ جائیں گی۔
مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور سے نافذ ہونے والا پینتیس اے کا قانون بھی بھارت نے نیک جنبش قلم اپنے آئین سے خارج کردیا اس قانون کے خاتمے سے اب بھارت کے ایک سو تئیس کروڑ عوام کشمیر کی حسین وادی کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور یہاں جائیدادوں او ر سیبوں کے باغات پر قبضہ جمانے کی فکر میں ہیں ، چند روز پہلے ہی بھارت نے دس ہزار ایکڑ پر مشتمل ایک رقبے کو صنعتی زون کا نام دے دیا ہے ظاہر ہے یہاں پر بھارتی شہری کارخانے اور فیکٹریاں لگانے آئیں گے اور یوں نہ صرف کشمیریوں کی معیشت برباد ہو جائے گی بلکہ ان کی آبادی بھی اقلیت میں تبدیل ہوکر رہ جائے گی، یہی کام اسرائیلی یہودیوں نے فلسطین میں کیا ۔
بھارت بپھرا ہوا ہے مگر پاکستان نے اسے نکیل ڈالنے کے لیے ایک بروقت اور دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے اور دنیا کے سامنے اپنا کیس رکھنے کے لیے پاکستان کا مکمل اور نیا نقشہ شائع کر دیا گیا ہے ، چودہ اگست انیس سو سنتالیس کو اگر پاکستان کی جغرافیائی حدیں واضح نہیں تھیں تو آج سب کو پتہ چل گیا ہے کہ پاکستان کا جغرافیہ کیا اور اس کی حدود کیا ہیں ۔
وزیر اعظم عمران خان کے انشی ایٹو نے کشمیریوں اور پاکستانیوں کے دل باغ باغ کر دیئے۔
٭…٭…٭