وزیراعظم عمران خان نے نیا سیاسی نقشہ کیا جاری کیا کہ بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مودی کے یاروں میں بھی کہرام برپا ہو گیا۔ وزیراعظم عمران خان کشمیر کے سفیر سے آگے بڑھ کاغذی کشمیر سے ہوتے ہوئے فاتح کشمیر بلند و بالا مقام کی طرف تیزی سے گامزن ہیں اور ان کے ناقدین اور حاسدین دہکتے کوئلوں پر BBQ ہو رہے ۔
پاکستان نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی اور وحشیانہ لاک ڈاؤن اور کرفیو کی سالگرہ کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ جونا گڑھ، سیاچن، سرکریک اور لداخ کو پاکستان کا علاقہ قرار دے جنوبی ایشیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ بین الاقوامی امور کے نام نہاد ماہر پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین یاوہ گوئی کرتے ہیں ‘‘یہ قدم اٹھا کر اسلام آباد نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پورے جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ سجمھتا ہے اور سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے تحت اس کا حل چاہتا ہے، تو ایسے میں ایک متنازع علاقے کو نقشے کی حد تک اپنا حصہ دکھانے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ حواس باختہ رفعت کہتاہے کہ سکیورٹی کونسل پاکستان پر اعتراض بھی اٹھا سکتی ہے کہ آپ نے متنازعہ علاقے کو کیوں اپنا حصہ ظاہر کیا۔ 'نقشہ جاری کرنے سے پہلے اس کا کسی بین الاقوامی ادارے سے منظور کروایا جانا ضروری ہوتا ہے جو کہ موجودہ صورت میں نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے گذشتہ سال کے ایک غلط اقدام کے جواب میں ویسا ہی غلط قدم اٹھانا کوئی عقل مندی نہیں، کسی نے حکومت کو بہت ہی غلط مشورہ دیا ہے‘‘۔ آپ کوئی بھی بھارتی چینل لگا کر دیکھ لیں اس سے ملتی جلتی یاوہ گوئی اور بکواس چل رہی ہوگی۔ وقت نے خُلد آشیانی مجید نظامی اور کشمیریوں کے ساتھ وفا پر پابند سلاسل حافظ سعید کو سچ ثابت کردیا۔ ’’کشمیر بھارت کی مذمت سے نہیں، اس کی مرمت سے آزاد ہوگا‘‘ کا علاج ہی صحیح نکلا۔ 5اگست2019 کو ایک سال اور ویسے کشمیریوں کی آزادی سلب ہوئے پون صدی ہونے کو آئی۔ ’مسلمان دنیا‘ اور ’عالم کفر‘ مقبوضہ کشمیر پرسات دہائیوں سے مجرمانہ ’’خاموشی‘‘اختیار کئے ہوئے ہیں، ہماری ایک منٹ کی خاموشی وہاں کیا بگاڑ لے گی۔ شاہ محمود قریشی نے’’سری نگر ہائی وے‘‘نام رکھ دیا
5اگست کو ایک سال پہلے بھارت نے نفسیاتی کھیل کھیلا تھاجس میں وہ بظاہر کامیاب رہا، اس نے دنیا اور کشمیریوں کو دکھانا تھا کہ اس سے لڑائی مول نہیں لی جاسکتی۔ اس کی یہ سوچ عظیم چینیوں نے بھارتی فوج کی ’گیدڑکُٹ‘ لگا کر دور کی۔ جنت آشیانی مجید نظامی اور حافظ سعید فارمولے کے اثرات ہیں کہ موذی کی داڑھی سادھوں کی طرز پر لمبی ہوگئی، اسے چینیوں کے ’’ٹھڈوں‘‘، ’’تھپڑوں‘‘ اور’’پٹائی‘‘ نے جو ’’گیان دھیان‘‘ دیا ہے، وہ ہماری ’’امن پسندی‘‘ نہیں دے سکی۔ حقیقت اور خیال کی دنیا میں بہت فرق ہے۔ مقبوضہ وادی کے اندر بھارت نے جو حقیقت بنا رکھی ہے وہ لداخ میں کچھ اور ہے۔
کہتے ہیں کہ سوتے کو تو جگایا جاسکتا ہے لیکن جو جاگتے میں سورہا ہو، اسے کیسے جگایاجائے؟ ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ پانچ اگست 2019 کو بھارت نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 کو نکال کر باہر پھینک دیا۔ یہ شق بھارت نوازکشمیریوں کو مطمئن کرنے کے لئے ڈالی گئی تھی کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل رہے گی۔اسی لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل جنت نظیر وادی کشمیر میں نو لاکھ بھارتی قابض افواج موجود ہیں۔ ایک سال سے مسلسل لاک ڈاون، کرفیو جاری ہے۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ تھا کہ 72 گھنٹے کے لئے یہ صورتحال ہے، پھر مقبوضہ جموں وکشمیر سے یہ لاک ڈاون ختم کردیاجائے گا۔ آج ایک سال ہوگیا۔ یہ ہے بھارت اور اس کے وعدے۔ یہ لاتوں کا بھوت ہے جو باتوں سے نہیں مانے گا۔ چین کابھی یہی تجربہ رہا ہے۔
دنیا نے لداخ میں جو دیکھا سو دیکھا لیکن پاکستانی اور کشمیری قوم نے بھی دیکھ لیا کہ بھارت کا دماغ درست کیسے ہوگا؟ حق کیسے لیاجاتا ہے؟ اور مکار موذی اور کم ظرف دشمن سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہے۔ طاقت کا اپنا مزاج ہے۔ طاقت کی اپنی حقیقت ہے اور ہم اس حقیقت سے نظریں چرا کر کب تک ’کبوتر‘ بنے رہتے ؟
مکار موذی ہماری نفسیات سے کھیل رہا ہے، اسی لئے لائن آف کنٹرول پر بھی اس کا خونیں کھیل جاری ہے۔ آئے روز وہ ہمارے وجود کو زخمی کرتا ہے۔ بے گناہ نہتے شہریوں کو نشانہ بنایاجاتا ہے۔ انہیں شہید کیاجاتا ہے۔ ہم اپنے شہید اور زخمی شہریوں کا پرسہ بیان کی صورت جاری کرتے ہیں۔ بہت جلال میں آئیں تو دفتر خارجہ ایک سینئر بھارتی سفارت کار کو طلب کرکے چائے کے ساتھ احتجاجی مراسلہ تھما دیتا ہے۔
ایسے احتجاجی مراسلوں کا قبرستان آباد ہوچکا ہے لیکن نتیجہ صفر تھا۔ موذی کی دْم کو سہلانے اور پچکارنے والا ہاتھ کیا امریکہ کا نہیں؟ ’بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔‘ سلامتی کونسل کا مستقل رکن فرانس اپنے جدید ترین لڑاکا طیارے ’رافیل‘ بھارت کو دے کر اسے ہمارے خلاف مضبوط بنارہا ہے۔ کیا فرانس انصاف کی بات کرے گا؟ یہ وہ ملک ہے جس نے الجزائر سے لے کر کرہ ارض پر کہاں کہاں ظلم نہیں کیا۔ کھوپڑیوں کے مینار اب بھی ان کے عجائب گھر میں ان کی سفاکی اور بے رحمی کا ثبوت بن کر موجود ہیں۔ یورپ کے مہذب سمجھے جانے والے ملک کا یہ حال ہے۔ ہم کس خیالی دنیا میں جی رہے ہیں؟
سلامتی کونسل کا ایک اور مستقل رکن برطانیہ ہے۔ یہ وہی برطانیہ نہیں جس کی نوآبادیات کا ہم حصہ تھے۔ جس کی غلط تقسیم اور بے ایمانی نے کشمیر کا تنازعہ دراصل پیدا کیا۔ یہ زخم برطانیہ کے ہی لگائے ہوئے ہیں۔ کیا برطانیہ اتنا منصف مزاج ہوگیا ہے کہ مظلوم کشمیریوں کو انصاف دلائے گا؟
سلامتی کونسل میں چین اور روس دو ممالک ایسے ہیں جن سے ناانصافی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ حالات وواقعات کو دیکھتے ہوئے ہمیں نئے امکانات کو تلاش کرنے کی جستجو کرنا ہوگی۔ خطے میں چین کے بڑھتے کردار اور عالمی قوت بن کر ابھرنے سے جو نئے جہان آباد ہورہے ہیں، ان کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ ’’طاقت کی دنیا‘‘ کی حقیقت کو سمجھنا ہوگا۔ ’’مجبورمحض‘‘ اور ’’مختار کْل‘‘ کے درمیان امکانات کو تلاش کرنا ہوگا۔ (جاری)
پاکستان کا نیا نقشہ: جنوبی ایشیا کا بدلتا چہرہ
Aug 06, 2020