امریکہ نے جو جنگی حکمت عملی تیار کی ہے اس کے تحت چین کو براستہ جنوبی چینی سمندر سے چین کے لئے تیل اور دیگر سامان فراہم کرنے سے روک دیا تھا۔ اس ضمن میں وہ کسی حد تک پہلے ہی کامیاب ہو چکا ہے۔جاپان‘ فلپائن‘ تائیوان‘ ہانگ کانگ‘ جنوبی کوریا‘ ویتنام‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ برونائی اور آسٹریلیا چین کے خلاف ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ کیا گیا ہے جس کے تحت یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی سرزمین کو استعمال کر سکتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ اگر بھارتی سمندر میں ضرورت پڑی تو یہ ایک مشترکہ آپریشن شروع کر سکتے ہیں۔ اب امریکہ نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ ملا کہ کاراستہ چینی بحری جہازوں کیلئے بند کر دے کیونکہ اس راستے سے ہی چین 80 فیصد تیل درآمدکرتا ہے اور اس طرح چین تجارت کے حوالے سے مکمل طور پر گوادر پر انحصار کرے گا یہی وہ ایک وجہ ہے جس سے امریکہ اور بھارت سی پیک/گوادر کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ اس سے چین کو ایک متبادل روٹ دستیاب ہو جائے گا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سی پیک کا منصوبہ بنیادی طور پر چین کیلئے طویل بھارتی سمندری راستے کی جگہ ایک نہایت مختصر روٹ تیار کرنا ہے ۔ چین اور پاکستان کی جانب سے اس منصوبے پر عمل کرنے کا فیصلہ نہایت دانشمند انہ ہے۔ امریکہ اور بھارت کی جانب سے چین کیلئے سامان کی نقل و حمل کے راستے بند کرنے کے منصوبوں کے ردعمل کے طور پر چینی لیڈر شپ کو اس کے مقابلے میں اپنی حکمت عملی وضع کرنے پر مجبور کر دیاہے۔ اگر بھارت ملاکہ کا راستہ چین کیلئے بند کرتا ہے تو چین سقم اور سیلی گوری کے علاقوں کو قبضہ کرنے کے آپشن سے پیچھے نہیں ہٹے گا جس میں بھارت کی سات اہم ریاستیں یعنی آسام‘ ناگالینڈ‘ آرونچل پردیش‘ میگھالیا‘ میزورام‘ منی پور‘ تری پورہ متاثر ہونگی اس سے بھارت کے اندر سازو سامان کی نقل و حمل بھی بری طرح متاثر ہو گی جس سے پورے بھارت میں بے چینی اور خوف پیدا ہو جائے گا۔ چین کے اس اقدام سے بھارت کے اندرونی علاقوں میں نقل و حمل کے متاثر ہو، کیا بھارت ایسا کرنے کا رسک لے سکتا ہے؟ بھارت بھی چین کیلئے اس کے راستوں کو بند کرنے کے مضمرات سے بخوبی واقف ہے۔
بھارت کے اس فیصلے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کے دور حکومت کے دوران اپنے سپاہیوں کی چینی افواج کے ہاتھوں مشرقی لداخ میں وادی گیلوان میں ذلت کو بھولنے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہے۔ رپورٹس کے مطابق بھارت چین کے خلاف پراکسی وار شروع کر چکا ہے اور پرانا تبت کارڈ کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت اب دلائی لاما کے معاملے کو ہوا دے رہا ہے اور پوری دنیا خاص طور پر مغرب اور اقوام متحدہ میں اس کی حمایت کرنے پر بھی آمادہ نظر آتا ہے۔ دوسری جانب چین نے نہایت عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کو اپنے کیمپ میں شامل کر لیا ہے جس کے نتیجے میں ایران نے بھارت کے ساتھ ہونے والے چاہ بہار پورٹ پراجیکٹ معاہدے کو منسوخ کر دیا۔ چین نے حال ہی میں سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو ڈالر کی بجائے ان کی اپنی کرنسیوں میں تیل تجارت کرنے کی پیشکش کی ہے مگر سعودی عرب اور خلیجی ممالک امریکہ کے زبردست زیر اثر ہونے کی وجہ سے اس تجویز سے متفق ہوتے نظر نہیں آرہے ۔ اس صورتحال میں چین سعودی عرب کی بجائے ایران اور روس سے تیل خریدنا شروع کر دے گا۔ چین سعودی عرب سے اربوں روپے کا تیل خریدتا ہے جبکہ ایران نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چین کو آدھی قیمت پر تیل فراہم کرنے کی پیشکش کر دی ہے۔ یہ امر نہایت تشویش کا باعث ہے کہ امریکہ پہلی عالمی جنگ کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے جس کے تحت روس‘ برطانیہ اور فرانس بمقابلہ جرمنی‘ آسٹریلیا‘ ہنگری اور اوٹومین امپائرتھی۔ اس صورتحال میں امریکہ نے دونوں فریقین کو اسلحہ اور خوراک بیچ کر تین سالوں کے دوران بے تحاشہ مال کمایا تھا۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ امریکہ اس بار جنگ میں خود شامل نہیں ہو گا بلکہ چین کے خلاف وہ بھارت کو استعمال کرے گا۔ دنیا کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسرائیل اس صورتحال کو ایک تیسرے فریق کی حیثیت سے دیکھ رہا ہے اور یہ اس جنگ میں اچانک کود پڑے گا جیسا کہ پہلی عالمی جنگ میں دوکمزور ملکوں کے درمیان جنگ میں ہوا تھا۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ بھارت پہلے ہی اسرائیل کو اپنے فوجی اڈے اور کمپیوٹر کے استعمال کی اجازت دے چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے بھارت کو اپنا ترجیحی دفاعی پارٹنر قرار دے دیا ہے۔ اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو اسرائیل امریکہ کی کامیابی کیلئے اپنا کردار ادا کرے گا۔ اس صورتحال میں پاکستان جو کہ ایک ایٹمی طاقت ہے الگ تھلک نہیں رہے گا اور اس کے پاس چین کی حمایت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیںہو گا۔ یہ جنگ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ ہولناک ہو گی کیونکہ اس سے ناقابل بیان تباہی ہو جائے گی۔ پاکستان اس وقت واحد ملک ہے جو اس جنگ کو ٹال سکتا ہے اور جنرل قمر جاوید باجوہ یہ کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں کیونکہ ان تمام ممالک میں ان کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور وہ تمام متحرک ممالک کو بات چیت کی میز پر لا سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے جنرل باجوہ اس دنیا میں پائیدار امن کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے کیونکہ جدید ڈپلومیسی دفاعی حکمت عملی کی زیادہ مرہون منت ہوتی ہے۔ (ختم شد)