کراچی پر پوائنٹ اسکورنگ

کراچی میں بارش کے اسپیل آئے اور گزر گئے تیسرے اسپیل کے بعد کراچی اربن فلڈنگ کا شکار ہوگیا۔ کراچی کا ضلع وسطی ، غربی بدترین فلڈنگ کا شکار ہوئے۔ سندھ حکومت اور کراچی کے بلدیاتی اداروں پر طنز و نشتر کے تیر چلتے گئے اتنے تیر چلے کہ بات وفاق تک چلی گئی۔ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے اراکین نے قومی اسمبلی کے اجلاس کا مشترکہ بائیکاٹ کیا ۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی تحریک انصاف نے اسامہ قاردی کا ساتھ دیا۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان جو کراچی کو سنجیدہ نہیں لیتے تھے۔ جاگ گئے۔این ڈی ایم اے اور فوج کو  ہدایت دے دی کہ کراچی میں صفائی اور نالوں کی کلیئرنس کے کاموں میں حصہ لیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کی دو سال سے زائد عرصے سے التواء بلدیاتی اختیارات کی پیٹیشن آئین کی شق 140-Aجس پر سپریم کورٹ میں اب تک سماعت نہیں ہوئی ۔ حتی کہ کراچی کے عوام کی سوچ تو یہ بھی ہو گئی ہے کہ کراچی کو وفاق کے ماتحت دے دیا جائے۔ اس پر وزیر اعظم نے کہا کہ آئین کی شق 140-A پر عمل کئے بغیر اور بلدیاتی اداروں کو اختیارات دیئے بغیر سسٹم ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں  نے کراچی پر پوائنٹ اسکورنگ کی جس میں تحریک انصاف بھی شامل ہے۔ کراچی کا درد سب کا عین اسوقت پر جاگا ہے جب 30اگست2020کو بلدیاتی نظام ختم ہو رہا ہے اور متوقع طور پر انتخابات ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کراچی کی بلدیات اسکی ذمہ دار ہیں یا حکومت سندھ، عوام کو حقیقت حال کا علم نہیں اس لئے وہ میئر کراچی اور ڈی ایم سیز کو قصور وار سمجھتے ہیں ۔ اربن فلڈ کی ذمہ دار سندھ کی حکومت ہے۔ بلدیہ عظمی کراچی کو کے ایم سی کے 38 نالوں کی صفائی کے لئے پچاس کروڑ کی رقم ملی جو انتہائی کم تھی جبکہ اندرونی نالوں کی صفائی ڈی ایم سیز کو کرنی تھی جسکے لئے انہیں ایک ایک کروڑ دیئے گئے۔جو خرچ بھی ہوئی تو پھر نالے کیوں چوک ہوئے اوور فلو کیوں ہوئے؟ حکومت سندھ نے نالوں میں کچرا ڈالنے کی روک تھام کیوں نہیں کی؟ کیونکہ کچرا اٹھانے کا محکمہ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ اتھارٹی کا ہے  جو حکومت سندھ کے ماتحت ہے جس پر بلدیہ عظمی کراچی کا کوئی کنٹرول نہیں۔ اسی طرح کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھی براہ راست وزیر بلدیات اور حکومت سندھ کے ماتحت ہے۔ ماسٹر پلان ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بھی حکومت سندھ کے براہ راست کنٹرول میں ہیں۔ سابق ڈی جی ایس بی سی اے نے ایک پلان آصف زرداری  کو کراچی کے لئے دیا  اسکے تحت کے ڈی اے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ایس بی سی اے، ایل ڈی اے، ایم ڈی اے اور ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے ادارے بلدیہ عظمی کراچی کے کنٹرول سے باہر کردیئے گئے۔ماسٹر پلان ایس بی سی اے کو دے دیا گیا۔کے ڈی اے کو الگ کردیا گیا۔ لوکل ٹیکس جو بلدیہ کراچی کا ریونیو کا سب سے اہم محکمہ تھا اسے چھین کر ڈی ایم سیز کو دے دیا گیا۔ ایجوکیشن ، ہیلتھ، فوڈ، ٹریڈ لائسنس، لائنز ایریا پروجیکٹ، سرجانی پروجیکٹ ، سالڈ ویسٹ، میڈیکل، ٹیچرز ٹریننگ انسٹیوٹ سمیت متعدد محکمے بلدیہ کراچی سے لے لئے گئے، کے ڈی اے کی گورننگ باڈی سے میئر کراچی کو فارغ کردیا گیا، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی چیئرمین شپ میئر کراچی سے لے لی گئی۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جو کے ڈی اے اور کے ایم سی ونگز ہوتے تھے انہیں ختم کرکے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنا دیا گیا۔ لینڈ ڈپارٹمنٹ جو  کے ایم سی کا فنکشن تھا۔ وہ ڈی ایم سیز میں بھی خود ساختہ بنا کر کے ایم سی سے ریونیو چھین لیا گیا۔ واٹر کمیشن نے کے ایم سی بلڈنگ میٹریل اور دیگر  مدوں میں پابندی لگا کر ریونیو کلیکشن سے روک دیا۔ محکمہ انٹر پرائز انوسٹمنٹ پروموشن کے بچت بازار کے ڈی اے اور کے ایم سی لینڈ کا پھڈا ڈال کر بند کرادیئے گئے۔ کے ایم سی کے اثاثوںپر قبضہ کرلیا گیا۔ صدر پارکنگ پلازہ چھین لیا گیا۔ کروڑوں مالیت کا جنریٹر ضبط کرلیا گیا۔ کے ایم سی کا پارٹ رہنے والے میٹروپولیٹن کمشنرز  بھی حکومت سندھ کے متعصبانہ رویہ کی وجہ سے ڈی جی کے ڈی اے بن کر بھی کے ایم سی کو انصاف نہیں دلا سکے۔ یہی نہیں ہوا بلکہ ڈپٹی کمشنرز نے بھی بلدیہ کراچی کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلدیہ کراچی کی مالی حالت کس طرح وسائل پر قبضہ کرکے خراب کی جاتی رہی ہے۔ میئر کراچی کو تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے بعد کچھ نہیں بچتا۔ اس سال کے ایم سی کی کوئی نئی اسکیم بجٹ میں نہیں رکھی گئی جبکہ پچھلے بجٹ کی اسکیموں کے ایک کوارٹر کے پیسے جاری نہیں کئے گئے‘جو سیاسی پنڈت میئر کراچی اور بلدیاتی اداروں پر سوالات اٹھاتے ہیں۔اب ان سے سوال ہے کہ حقائق جاننے کے بعد وہ بتائیں کہ کونسی گیدڑ سنگھی سے کراچی کو ترقی کی طرف گامزن کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے والوں کی معلومات میں اضافہ کردیں کہ گزشتہ برس سندھ حکومت نے نالوں کی صفائی ڈپٹی کمشنرز سے کرائی جسکے لئے پانچ پانچ کروڑ جاری کئے گئے۔ کورونا آپریشن میں بھی ڈپٹی کمشنرز سے راشن تقسیم اور انہیں ہی فنڈز جاری کئے گئے جبکہ منتخب بلدیاتی نمائندے موجود تھے۔  میئر کراچی کو جگہ جگہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔ کے ایم سی کے تمام آکشن سندھ حکومت منسوخ کردیتی ہے۔ بلدیہ کراچی کو مفلوج کردیا گیا ہے جسکا مقصد ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹ بنک کو کارکردگی کے ساتھ جوڑ کر متاثر کرنا نظر آتا ہے۔ موجودہ بارشوں میں ایم کیو ایم کی بلدیاتی قیادت وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بے بس نظر آئی لیکن کام کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ شہر کا جب تک اصل مسئلہ حل نہیں ہوگا کوئی بھی میئر کامیاب نہیں ہوگا۔ مردم شماری میں کراچی کی آبادی مخصوص مقاصد کے تحت کم کردی جاتی ہے۔ جسکا مقصد کراچی کو اسکے جائز وسائل سے محروم کرنا اور کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کو روکنا ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق یہ عمل اندرون سندھ سے جیتنے کے بعد کراچی کی بڑھتی نشستوں سے خوف ہے جس میں وزارت اعلی چھننے کا خوف بھی شامل ہے ۔ ایک ایسا شہر جو صوبہ کو 95فیصداور وفاق کو 70فیصد ٹیکس دیکر پورے ملک کو پالتا ہے اسے  احساس محرومی کا شکار کرکے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے مترادف ہے۔آبادی کے درست اعداد و شمار ہی شہر کی مناسب منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔ اختیارات جس طرح دنیا بھر میں میئر کو ہوتے ہیں ۔ پولیس بھی اسکے ماتحت ہوتی ہے۔ اسی طرح 2001کے بلدیاتی نظام کو معمولی ترامیم کے ساتھ ناٖفذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آمرانہ دور میں بلدیاتی دور بنے اور شہروں کی خدمت ہوئی۔ جبکہ جمہوری حکومتیں اس نظام کی جگہ غنڈہ گردی پر مبنی ڈپٹی کمشنری نظام کی سرپرستی کرتی رہی ہیں۔ یہ کام اور مردم شماری کی درستی کا کام بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب گلزار احمد سے ہی امید رکھنی ہوگی۔  وزیر اعظم عمران خان کی طاقتور بلدیاتی نظام کے لئے سوچ اچھی ہے لیکن اسکے لئے آئین کے آرٹیکل 140-Aکے اوپر عمل درآمد اور پورے ملک میں یکساں نظام ہونا ضروری ہے۔  

ای پیپر دی نیشن