طبی ماہرین کو کئی ماہ سے اس سوال نے پریشان کررکھا ہے کہ اگر نئے کورونا وائرس میں مسلسل جینیاتی تبدیلیاں آئیں تو اس کی روک تھام کے لیے تیاری کے مرحلے سے گزرنے والی ویکسینز زیادہ موثر ثابت نہیں ہوسکیں گی۔مگر اب اٹلی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں نئے کورونا وائرس کی اقسام کے جینیاتی سیکونسز میں بہت معمولی فرق ہے اور اس سے ویکسین کے موثر ہونے کی توقع بڑھ گئی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق بولوگنا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں نئے کورونا وائرس کے 48 ہزار سے زائد جینومز کا تجزیہ کیا گیا جن کو دنیا بھر سے اکٹھا کیا گیا تھا جبکہ اس نتائج طبی جریدے جرنل فرنٹیئرز این مائیکروبائیولوجی میں شائع ہوئے۔محققین نے وائرس کی 6 اقسام کو شناخت کیا مگر ان میں کوئی نمایاں کلینیکل یا مالیکیولر فرق تلاش نہیں کرسکے۔محققین کا کہنا تھا کہ نیا کورونا وائرس ممکنہ طور پر پہلے ہی انسانوں کو متاثر کرنے کے لیے خود کو ہر ممکن حد تک تیار کرچکا ہے اور اسی سے اس میں ارتقائی تبدیلیاں نہ آنے کی وضاحت ہوتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ طریقہ علاج بشمول ویکسینز پر ابھی کام کیا جارہا ہے وہ وائرس کی تمام اقسام پر موثر ثابت ہوں گے۔وائرس کی ان اقسام میں وہ ایل قسم بھی شامل ہے جو سب سے پہلے دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں سامنے آئی تھی۔محققین کا کہنا تھا کہ اب ایل قسم ختم ہورہی ہے اور جی قسم دنیا بھر میں سب سے زیادہ پھیل چکی ہے۔جی اور دیگر اقسام زیادہ تر یورپ اور شمالی امریکا میں دریافت ہوئی ہیں اور تجزیے کے دوران 74 فیصد جینیاتی سیکونسز میں انہیں دیکھا گیا۔تحقیق میں بتایا گیا کہ نئے کورونا وائرس کی نئی اقسام بننے کا تناسب عام انفلوائنزا وائرس کے مقابلے میں 50 فیصد سے بھی زیادہ کم ہے۔محققین کے مطابق نتائج ویکسینز کی تیاری کے حوالے سے حوصلہ افزا ہیں کیونکہ اگر وائرس کے وائرل فیچرز میں مسلسل تبدیلیاں آئیں تو ویکسینز زیادہ موثر ثابت نہیں ہوں گی، جیسا فلو ویکسین میں دیکھنے میں آتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایک موثر ویکسین مدافعتی نظام کو نئے کورونا وائرس کو شناخت اور اس کے خلاف لڑنے کی تربیت فراہم کرے گی۔اس مقصد کے لیے مدافعتی نظام کورونا وائرس کے کچھ نمایاں فیچرز جیسے اسپائیک پروٹین کو شناخت کرکے اس پر قابو پانے میں مدد فراہم کرے گا۔محققین کا کہنا تھا کہ مخصوص وائرل فیچر ایک جھنڈے کی طرح ہوتے ہیں، اور جب مدافعتی نظام اس جھنڈے کو شناخت کرتا ہے تو اس سے ردعمل ظاہر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ایسے خدشات بھی موجود ہیں کہ وائرس میں تبدیلیوں سے وہ زیادہ متعدی یا جان لیوا بن سکتا ہے، تاہم ابھی تک اس حوالے سے شواہد سامنے نہیں آسکے ہیں۔محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ضروری ہے کہ جراثیم کے سیکونسز کی مانیٹرنگ کو جاری رکھا جاسکے تاکہ اس میں آنے والی تبدیلیوں کا علم ہوسکے۔مگر ان کے مطابق ابھی ایسے مضبوط شوہد موجود نہیں کہ نئے کورونا وائرس کی کوئی قسم زیادہ متعدی ہو تاہم کچھ وائرل ذیلی آبادی دنیا بھر میں تیزی سے نشوونما پاسکتی ہے، تو اس لیے ضروری ہے کہ وائرس میں آنے والی تبدیلیوں پر نظر رکھی جائے تاکہ اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے یا اس کی جارحانہ قسم کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔