اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بنچ میں زیر سماعت چیئرمین سینٹ الیکشن چیلنج کرنے سے متعلق یوسف رضا گیلانی کی انٹراکورٹ اپیل میں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے وکیل کی طرف سے دلائل جاری رہے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے وکیل نے عدالتی اور پارلیمانی فیصلے جمع کراتے ہوئے کہا گیا کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری اور پارلیمنٹ کے ممبران اور ممبران کے اختیارات پر بات کرونگا، ان تین بنیادی نقاط کے سوا پارلیمنٹ کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستانی پارلیمنٹ کا تقریباً یکساں نظام ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کبھی پاکستانی پارلیمنٹ میں کسی کو کنٹیمپ یا سزا ہوئی؟، جس پر فاروق ایچ نائیک ایڈووکیٹ نے کہاکہ پاکستانی پارلیمنٹ میں پارلیمنٹ کی حد تک ایسا کبھی نہیں ہوا، اس معاملے پر ایک دفعہ پیپر ورک بھی ہوا تھا مگر تاحال اس پر مزید کوئی کام نہیں ہوا۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیاکہ پارلیمان میں بحث کے دوران اگر لڑائی ہوجائے تو کیا ممبران ایک دوسرے کے خلاف ایف آئی آر درج کراسکتے ہیں؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ اگر سیشن میں لڑائی کے دوران کوئی کسی کی موت واقع ہو جائے تب ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے۔ بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے بیرون ملک پارلیمنٹ لڑائی کو عدالت میں چیلنج کیس کا حوالہ بھی دیا گیا اور کہا گیا کہ بیرون ملک پارلیمنٹ کی لڑائی کو عدالت میں چیلنج کرنے والے وکلاء کو پارلیمنٹ نے توہین پارلیمان کا نوٹس جاری کیا تھا، اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے فاروق ایچ نائیک ایڈووکیٹ کو مخاطب کیا اور مسکراتے ہوئے کہاکہ نائیک صاحب، علی ظفر صاحب اس کیس کا حوالہ دے کر آپ کو ڈرا رہے ہیں، جس عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ اس موقع پر بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے بیرون ممالک کے انگلش عدالتی فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا گیا کہ انگلش عدالتوں نے پارلیمان کی کاروائی کو پارلیمنٹ کا اندورنی معاملہ قرار دے دیا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندرونی معاملات میں عدالت بالواسطہ یا بلا واسطہ مداخلت نہیں کرسکتی، پارلیمنٹ کے کسی فیصلے پر سوال بھی نہیں اٹھایا جاسکتا۔