پچاس سال پہلے کے افغانستان کی بات ہے جب وہاں ظاہر شاہ کی بادشاہت کا دور تھا، کابل میں رنگینیاں عروج پر تھیں۔ یہ افغانستان کا وہ واحد دور گردانا جا سکتا ہے کہ جس میں افغانستان میں امن رہا۔ 8نومبر 1933ء سے لے کر 17جولائی 1973ء تک بادشاہ ظاہر شاہ کی قیادت میں افغانستان نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ سیاحت کے حوالے سے بھی دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کرنے والا ملک، مگر پھر 1973ء میں اچانک ظاہر شاہ کی طبیعت خراب ہوئی، ملک میں ان کا علاج ممکن نا تھا اس لئے انہیں علاج کی غرض سے اٹلی کا جانا پڑا۔ اب بادشاہ کے جاتے ہی اس کے چچا زاد محمد داؤد خان نے افغان کیمیونسٹ عوامی جمہوریہ پارٹی اور فوج کے ساتھ مل کر اقتدار پر شب خون مارا اور کامیاب بغاوت کے نتیجے میں اقتدار پر قبضہ جما لیا ۔ یہ وہی داؤد خان ہے کہ جس نے پاکستان سے نیشنل عوامی پارٹی کے خان عبدالولی خان ، اجمل خٹک ، جمعہ خان صوفی ، بلوچ علیحدگی پسندوں اور دیگر کو افغانستان بلوا کر ملاقات کی، جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی لہر آئی ۔
پھر اپریل 1978ء میں خافظ اللہ امین جو اس وقت داؤد خان کے ایما پر گھر میں نظر بند تھا، اس کے فوج میں حامیوں نے بغاوت کی اور داؤد خان کو اس کے خاندان کے ہمراہ قتل کر دیا گیا۔ 30اپریل 1978ء کو کیمیونسٹ لیڈر نور محمد خان ترکئی نے ملک اور پارٹی کا اقتدار سنبھالا ، مگر خافظ اللہ امین جس کی رچی سازش سے وہ اقتدار میں آیا تھا، اسی سے دوہری گیم اور اقتدار میں حصہ دار نا بنانے پر 14ستمبر 1979ء کو ترکئی جب ماسکو دورے سے واپس وطن لوٹا تو خافظ امین اللہ کے حکم پر اسے جیل میں ڈال دیا گیا، جہاں وہ اپنی جان سے گیا، اور اس طرح نور محمد خان ترکئی افغانستان کا نیا صدر بنا۔ خافظ اللہ امین سے کیا برتاؤ اور اقتدار پر قبضہ جمانے پر ترکئی سے KGB سخت ناراض تھی، وہ اسے CIA کا ڈبل ایجنٹ تصور کرتے تھے۔ واشنگٹن کے ساتھ پینگیں بڑھانا اس کے لئے انتہائی خطر ناک ثابت ہوا۔ دوسری جانب ملک کے بیشتر صوبوں میں سنگین عوامی بغاوت شروع ہو چکی تھی۔ ہرات میں شدید گھمسان کا رن تھا، اور پھر یہیں سے عوام اور فوج کے درمیان ایک کھلی جنگ شروع ہوئی اور پورا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا۔ وہیں جب 1979ء میں روسیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ، تو ایسے میں KGBکے جنرل یوری نے ترکئی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، جس کے بعد اس پر دو جان لیوا حملے ہوئے مگر وہ بچ نکلا۔ جس کے بعد دسمبر 1979ء میں روسی قیادت نے ایک افغانی کمانڈر ببرک کارمل کے ساتھ اتحاد کیا ۔ KGBکے سفاک قاتلوں نے ترکئی اور اس کے سارے خاندان کو قتل کر دیا اور 27 دسمبر 1979ء کو ببرک کارمل نے صدارت کا عہدہ سنبھال لیا۔ اس سارے آپریشن کو Storm-333 کا نام دیا گیا۔ ببرک کارمل کو مکمل طور پر روسی حمایت حاصل تھی ۔ اس کے ساتھ ہی روس نے اپنی افواج کو افغانستان میں داخل کر دیا ، ببرک نے چھ سال تک حکومت کی ، اور اس دوران روسیوں سے مل کر اس نے تقریباً 20لاکھ معصوم افغانیوں کو قتل کر دیا۔ اب جب کہ یہ جنگ پاکستان کی سرحدوں پر آگئی تو پاکستان کو بھی مجبوراً اس جنگ میں کودنا پڑا۔ CIAنے پاکستان کے ساتھ مل کرآپریشن Cycloneشروع کیا ، جس میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے بھرپور طریقے سے مقامی جنگجوؤں کی مدد کی اور اس طرح افغانستان روس کے لئے ویت نام ثابت ہوا جہاں اس کے ہزاروں فوجی اپنی جان سے گئے اور اس کا فوجی ساز و سامان تتر بتر ہو گیا۔ 1986ء کے وسط میں جب حالات انتہائی ناگزیر ہو گئے تو روس نے اپنی آنکھوں کے تارے ببرک کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا اور اس کی جگہ افغان انٹیلی جنس ’’ KHAD‘‘ کے سربراہ میجر جنرل محمد نجیب کو افغان صدر بنا دیا جو کہ KGBکا ٹرینڈ ایجنٹ تھا۔ جنرل یوری کو نجیب پر مکمل بھروسہ تھا ، اسی بھروسے کو مزید تقویت دینے کی لئے نجیب نے اپنی قید میں موجود ہزاروں افغان مجاہدین کو بے انتہا تشد د کے ذریعے ہلاک کر دیا ۔1987ء میں میدان جنگ میں مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد نجیب نے عام لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے اپنے نام کے ساتھ ’’اللہ‘‘ بھی لگا لیا مگر اس کا یہ گُر بھی کام نا کر سکا ، اور عوام میں کیمونسٹ بری طرح بے نقاب ہو چکے تھے اور ان کے مظالم سے تنگ عوام بھرپور طریقے سے مجاہدین کا ساتھ دے رہے تھے۔ آخرکار 14اپریل 1988ء کو سوویت فوجوں نے مجاہدین کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دئیے اور یوں پاکستان اور افغان حکومت نے جنیوا معاہدے پر دستخط کئے، روسی فوجوں کا انخلا شروع ہو گیا ، اس کی تین لاکھ افغان فوج مجاہدین کے سامنے تنکوں کا ڈھیر ثابت ہوئی اور یوں نجیب کو اپنے اقتدار کو چھوڑنا پڑا۔ نجیب جو کہ بھارت کو اپنا دوسرا گھر کہتا تھا اس نے وہاں اپنے لئے پنا لینے کی درخواست کی مگر بھارت نے اس کی درخواست کو رد کر دیا۔ اس نے UNکے ایک پنا گزین کیمپ میں پناہ لی، بعد ازاں جب احمد شاہ مسعود کو قابل میں شکست ہوئی تو نجیب اور اس کے بھائی کو کیمپ سے گرفتار کر عوام کے سامنے پھانسی پر لٹکا کر لاکھوں معصوم افغانیوں پر کئے مظالم کا باب ہمیشہ کے لئے بند کردیا گیا۔جب کہ اس کی بیوی اور بچوں کو بھارت جانے کی اجازت دی گئی نا کہ سابقہ کیمونسٹ لیڈروں کی طرح قتل کیا گیا۔ یہ چھوٹا سا گروپ جس نے کابل پر قبضہ کیا اس نے سب سے پہلے اپنے لئے ’’طالبان ‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔(جاری ہے)