ملتان(رپورٹ: فرحان ملغانی)سائبر کرائم ایکٹ 2016ء کی کمزوریوں،قانونی سقم اور ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی استعداد کار میں کمی کے باعث الیکٹرانک و سائبر کرائم میں ملوث افراد قانون کی گرفت سے آزاد،سوشل میڈیا اور مختلف موبائل فون ایپلیکیشنز کے غلط اور غیر محفوظ استعمال کے باعث بچوں اور خواتین کو ہراسمنٹ اور بلیک میلنگ کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ تفصیل کے مطابق ملک اسوقت انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 72 ملین کے قریب پہنچ چکی ہے ان میں سے اکثریت سوشل میڈیا کی مختلف موبائل ایپس اور الیکٹرانک سہولیات کے محفوظ استعمال سے نابلد ہونے کے باعث شہری غیر محفوظ، فراڈیوں کا آسان ٹارگٹ خواتین اور بچے بن جاتے ہیں۔ ایف آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس سائبر کرائم کے حوالے سے 94 ہزار شکایات وصول ہوئیں اور 2021 میں ابتک 45 ہزار شکایات موصول ہو چکی ہیں، اسی طرح نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ( نیکٹا) کے مطابق نیکٹا کی ہیلپ لائن پر 5 لاکھ 19 ہزار شکایات موصول ہوئیں اتنی بڑی تعداد میں شکایات کی تفتیش کے لیے اداروں کی استعداد کار میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اسوقت داخلہ ،دفاع،پی ٹی اے اور ایف آئی اے کے درمیان مناسب کوارڈینیشن نہ ہونے کے باعث گرے ٹریفکنگ مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں الیکڑانک کرائم کی روک تھام کے قانون سائبر ایکٹ 2016 کے تحت سائبر کرائمز کے تفتیش کاروں کے مطابق اب بھی اس قانون میں ایسی کمزوریاں ہیں جن سے جرائم پیشہ افراد فائیدہ اٹھا سکتے ہیں۔تیزی سے تبدیل ہوتی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم پر قانون سازی کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ڈیجیٹل شواہد کی تعریف قانون میں واضح نہیں۔ سائبر کرائم کی زیادہ شکایات شہری علاقوں میں رپورٹ ہو رہی ہیں اور زیادہ تر شکایات بلیک میلنگ اور ہراساں کرنے سے متعلق ہوتی ہیں۔ خواتین کو سوشل میڈیا کے محفوظ استعمال سے لاعلم ہونے کے باعث انکی تصاویر اور ویڈیوز کو مختلف ایپس کے ذریعے ایڈٹ کرکے انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایف آئی اے' حکام کے مطابق، ملک میں سائبر کرائم کی شرح میں سالانہ 50 فی صد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا،سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے بھی سائبر کرائم کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔حکام کے مطابق، شکایات میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں گزشتہ 10 برسوں میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے۔سائبر کرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات سے نمٹنے اور ان کے حل کے لیے 'ایف آئی اے' کے عملے کی استعدادِ کار بڑھانے، وسائل فراہم کرنے اور انسانی وسائل کی جدید خطوط پر تربیت کی ضرورت ہے۔