خانیوال (عامر حسینی سے ) چین پاکستان اقتصادی راہدری پراجیکٹ کیلئے وفاقی وزرات منصوبہ بندی کی طرف سے وزیراعظم پاکستان کے مشیر کے طور پہ خالد منصور کے نام کا اعلان ہونے کے بعد سے قومی و عالمی زرائع ابلاغ میں ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا رجحان دیکھنے کو ملا ہے۔ حکومت مخالف جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے حامی حلقے خالد منصور کے مشیر برائے سی پیک مقرر ہونے کو اپنی چلائی مہم کا نتیجہ دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن وفاقی وزرات منصوبہ بندی کے زرائع اس سے بالکل الگ کہانی بیان کرتے ہیں۔ وزرات منصوبہ بندی میں انتہائی اہم عہدے پہ کام کررہے ایک افسر جن کو میڈیا سے بات کرنے کا اختیار نہیں ہے نے اپنی شناخت چھپائے جانے کی شرط پر نوائے وقت کو بتایا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ شاہراہوں کی تعمیر کے مرحلے سے نکل کر اب صنعتی تعاون کے مرحلے میں داخل ہورہا ہے اور صعنتی تعاون کے مرحلے میں زیادہ تر منصوبوں کا تعلق پیٹروکیمکل، فرٹیلائزر اور توانائی کے شعبوں سے ہے اور خالد منصور ان شعبوں میں چالیس سال کا تجربہ رکھتے ہیں۔ خالد منصور کے کریڈٹ میں یہ بات بھی جاتی ہے کہ چین کی پیٹروکیمکل، فرٹیلائزر ، توانائی کی بین الاقوامی شہرت یافتہ کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے اور چین کی ان شعبوں سے جڑی بیوروکریسی اور وزراتوں اور محکموں کے ٹاپ آفیشلز کے ساتھ بھی زبردست ورکنگ ریلشن شپ بھی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کے زرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سویلین و فوجی قیادت سی پیک کے حوالے سے قومی اتفاق رائے کو وسیع اور مضبوط بنانے کے لیے آنے والے دنوں اور کئی اور اہم فیصلے اور اقدامات اٹھانے جارہی ہے اور اس سلسلے میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ زرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے مشیر برائے سی پیک خالد منصور کی صلاحیتوں کا پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری بھی اعتراف کرتے ہیں اور چیف منسٹر سندھ سید مراد علی شاہ بھی ان سے سندھ حکومت کے توانائی کے منصوبوں میں مشاورت کرتے رہے ہیں۔ خالد منصور افریقہ اور مڈل ایسٹ میں خاص طور پہ مقامی شورش زدہ علاقوں میں توانائی کے منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے کا بھی بخوبی تجربہ رکھتے ہیں۔ پاکستان جو اس وقت جیو سٹرٹیجک پالیسی سے جیو اکنامک پالیسی کی طرف اہم ترین شفٹ لے رہا ہے اس دوران خالد منصور کا وزیراعظم کا مشیر برائے سی پیک بننا اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔ پاکستان کی جیو اکنامک پالیسی شفٹ کا سب سے بنیادی نکتہ افغانستان، سنٹرل ایشیا، ایران تک زمینی،ریل اور بحری راستوں سے تجارتی روابط کو فروغ دنیا ہے۔ چین نے حال ہی میں پاکستان ریلوے نیٹ ورک کی توسیع کے پہلے مرحلے کے لیے درکار 200 ملین ڈالر پاکستان ریلوے کو دے دیے ہیں۔ پاکستان ریلوے کارگو و فریٹ سروسز کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے کے منصوبے پہ پہلے سے کام کررہی ہے۔