معزز قارئین ! یوں تو آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی چیئرمین ’’پاکستان تحریک انصاف ‘‘ وزیراعظم عمران خان کی جیت ہوئی ہے لیکن آزاد ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم کی حیثیت سے جیت توسردار عبداُلقیوم نیازی ؔکی ہُوئی ہے؟ ابتدا میں تو جنابِ عمران خان کویہ خوش فہمی تھی کہ ’’ سردار عبداُلقیوم بھی اُن کی طرح ’’نیازی‘‘ ( پٹھان ) ہیں لیکن پھر پتا چلا کہ ’’ نو منتخب وزیراعظم آزاد کشمیر تو قوم کے مُغل ہیں اور شاعرؔہونے کے ناتے اُنکا تخلص نیازیؔ ہے، بہرحال مُغل اور نیازیؔ پٹھان دونوں "Martial Races" (جنگجو قوموں ) سے ہیں ۔
’’مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ ! ‘‘
وزیراعظم عمران خان سے پہلے ’’ضلع میانوالی کے ‘‘ تحریک پاکستان کے نامور (گولڈ میڈلسٹ) کارکن ، ’’ مجاہد ملّت‘‘ مولانا عبداُلستار خان نیازی ؒکا بہت چرچا تھا ۔ مولانا صاحب کے بے شمار مُریدین اور عقیدت مند اب بھی اُنہیں یاد کرتے ہیں ۔ مولانا صاحب کا انتقال 2 مئی 2001ء کو ہُوا۔ قیام پاکستان کے بعدبھارتی پنجاب کی ہجرت کے بعد ہمارا خاندان میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ کارکن رانا فضل محمد چوہان کی سربراہی میں پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا۔
’’ عظمت ِ مولانا نیازیؒ ! ‘ ‘
مولانا نیازیؒ جب بھی میانوالی سے لاہور اور لاہور سے میانوالی آتے جاتے تو اُن کی میرے والد صاحب سے دوستی ہوگئی اور جب فروری 1964ء میں جنابِ مجید نظامیؒ نے مجھے سرگودھا میں ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا تو میری بھی مولانا صاحب سے دوستی ہوگئی۔آپؒ کی گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان ( آف کالا باغ ) اور صدر ایوب خان کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ مَیں نے مولاناؒ کی عظمت پر ایک نظم لکھی اور اُن کی طرف سے کہا کہ … ؎
عِشق میں بیش و کم ، نہیں کرتے !
ہم ہیں درویش ، غم نہیں کرتے!
…O…
کجکُلا ہوں کے سامنے ، سجدے!
لوگ کرتے ہیں ، ہم نہیں کرتے!‘‘
’’ اُسوۂ حضرت زینب ؓ ، مادرِ ملّت ؒ!‘‘
2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ( صدر پاکستان مسلم لیگ کنونشن ) کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں تو ’’ مفسر نظریہ پاکستان ‘‘ جنابِ مجید نظامیؒ نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ’’ مادرِ ملّت‘‘ کا خطاب دِیا ۔ مَیں نے نہ صرف سرگودھا بلکہ پنجاب کے کئی شہروں میں مادر ملّت ؒ کے خطاب کو سنا تو میرا ایمان تازہ ہوگیا۔ خاص طور پر اُس وقت جب ،مولانا عبداُلستار خان نیازی نے اپنے خطابات میں کہا کہ ’’ مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ سانحہ ٔ کربلا کے بعد ، اُسوۂ ، حضرت زینبؓ بنت ِ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کی پیروی کر رہی ہیں !‘‘ تو پھر مادرِ ملّتؒ کے ہر جلسہ عام میں ہر مقرر نے یہی انداز اختیار کِیا تھا۔
1996ء میں جب میرا راولپنڈی کے حقیقی درویش ’’ تحریک نفاذِ فقہ جعفر یہ ‘‘ کے سربراہ آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی سے میل جول ہُوا تو مَیں نے اُنکے ہر مضمون اور پیغام پر یہی کہا کہ ’’ مادرِ ملّت، محترمہ فاطمہ جناحؒ تا حیات اُسوۂ حضرت زینب ؓ بنت ِ مولا علی مرتضیٰؓ کی پیروی کرتی رہی ہیں ۔ ایک ملاقات میں آغا جی نے مجھے اپنے دونوں قانون بیٹوں سے بھی ملوایا تھا اور کہا تھا کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ مَیں چاہتا ہُوں کہ میرے دونوں بیٹے مصّور ِ پاکستان علامہ اقبال ؒ اور بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد جناحؒ کی طرح وکیل بن کر قوم کی خدمت کریں !‘‘
’’ اولیاء کرام اور سردار عبدالقیوم نیازی ؔ! ‘‘
قومی اخبارات میں سردار آزاد کشمیر سردار عبداُلقیوم نیازیؔ صاحب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’’ اُنہیں اولیاء کرامؒ سے بہت عقیدت ہے اور وہ مختلف اولیاء کرام ؒکے دربار میں حاضری دِیا کرتے ہیں !‘‘ ۔ اچھی بات ہے لیکن پہلے فارسی لفظ نیاز ؔ اور نیازیؔ کے بارے بات ہو جائے ! نیازؔ کے معنی ہیں ’’ احتیاج ، خواہش، حاجت ، حاجت مند، آرزو مند ، محتاج ، میل ، رغبت ، اظہار محبت، تحفۂ درویش ‘‘ اور لفظ نیازیؔ کے معنی ہیں ’’ معشوق ، محبوب اور مطلوب ‘‘۔ معزز قارئین ! اِس موقع پر عاشقِ رسول ؐ اور مولا علیؓ کے حوالے سے مولائی ، علاّمہ اقبالؒ کے صرف دو شعر پیش کر رہا ہُوں …؎
کْشادہ دستِ کرم ، جب وہ بے نیازؔ کرے!
نیاز مند نہ کیوں ، عاجزی پہ نازؔ کرے!
بے نیازی ؔسے ہے ، پیدا میری فطرت کا نیاز!
سوز و سازِ جْستجو ، مثلِ صبا رکھتا ہوں میں! ‘‘
…O…
’’وزیراعظم چاند / وزراء ستارے ! ‘‘
عربی، فارسی اور اب اُردو میں بھی بادشاہ کے آگے کام کرنے والے کو ’’ وزیر ‘‘ اور زیادہ کام کرنے والے کو ’’وزیراعظم‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہندی زبان میں ’’ وزیر ‘‘ کو’’ منتری‘‘ اور ’’وزیراعظم ‘‘ کو’’پردھان منتری‘‘ انگریزی زبان میں وزیر کو "Minister" اور وزیراعظم کو"Prime Minister" ۔ معزز قارئین!برطانیہ کے وزیراعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ "A Moon Amongst The Stars"۔ (یعنی۔ ستاروں کے جھرمٹ میں چاند) لیکن ہمارے پیارے پاکستان میں کبھی کبھی ’’ ستاروں کے جھرمٹ میں چاند‘‘ سے زیادہ با اختیار ۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ’’ سورج ‘‘ (Sun) بھی ہوتا ہے لیکن برطانیہ میں ملکہ معظمہ کو "Sun"( آفتاب) نہیں کہا جاسکتا ؟ ہمارے ہاں جمہوریت ہو تو بہت ہی کم اختیارات دے کر عزت و احترام سے صدرِ پاکستان کے اختیارات ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی شاعر یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ … ؎
’’ حُسن والے ، حُسن کا انجام دیکھ
ڈُوبتے سُورج کو وقتِ شام دیکھ‘‘
…O…
معزز قارئین ! اگر ’’ با اختیار اداروں ‘‘ کا عمل دخل نہ ہو تو وزیراعظم ’’ چاند‘‘ کی حیثیت سے اپنے ’’ستاروں کے جھرمٹ‘‘ میں کئی کام کرسکتے ہیں لیکن اگر کوئی نہ کرے تو؟ صورت تو یہ ہے کہ ’’ ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان اور شریف خاندان نے نہ جانے کیوں یا کس مجبوری سے کشمیریوں کواُن کا حق خود ارادیت دلوانے کیلئے کیوں جدوجہد نہیں کی؟دیکھتے ہیں اب کیا ہونے والا ہے ؟ اگرچہ وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب کے وزراء اور معاونین خصوصی کے اختیارات کے بارے میں تو پوری قوم جانتی ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ ’’ وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر سردار عبداُلقیوم نیازی (یعنی۔ چاند ) اپنی کابینہ کے ستاروں کو کس طرح روشنی کا مینار بنانے کی جدوجہد کرتے ہیں ؟ اللہ کرے کہ ’’ سردار عبداُلقیوم نیازیؔ جب اپنی "Turn" پور ی کریں تو غازی کہلائیں!‘‘۔